بشریٰ سلیم


کبھی میں بھول جاتی ہوں میں کیا ہوں اور کیونکر ہوں
فقط بے نام سابندھن
یا ایک پھولوں بھرا گلشن
مجھے ملی حیات تم سے جب
اور ملی فقط شفقت
میرے بابا میرے بھائی
تم ہی سے ہے میرا سر فخر سے اونچا
ملی چاہت محبت کی
بنی کھل کر کلی سے پھول
پیا آنگن میں آئی تو
پڑا بابا کا انگنا بھول
کیا آباد جب اک گھر
ملیں خوشیاں جہاں بھر کی
ساتھی نے دیا احساس
کہ میں ہوں اک عطا رب کی
پھر خون جگر دے کر
سینچے نئے خوشے
مثل شجرجو دیتا ہے
چھاؤں پھول پھل راحت
فقط اک عام سی لڑکی
فقط اک عام سی بیٹی
مگر کچھ سنگدل ایسے
کہ ان معصوم کلیوں کو
جنہیں کھلنا تھا،مہکنا تھا
کسی کے گھر میں جا کر زندگی کا مان بننا تھا
نہیں دیتے کوئی بھی حق
دنیا کو سجانے کا
جہاں میں رنگ بھرنے کا
اور ان معصوم کلیوں کو
مسل دیتے ہیں ہاتھوں سے
نہ ہاتھ لرزتے ان کے
نہ دل ہی کانپتے ان کے
بلند رتبے کے حامل مرد
خدائی کے یہ دعوے دار
اک عورت کی ہی نرم آغوش میں پروان چڑھتے ہیں
اسی کمزور جنس کے لئے
پھر ظلم کا سامان بنتے ہیں
بروز حشر عادل رب کی عدالت میں
یہ مجرم سامنے ہوں گے
بھت ہی ناتواں ہوں گے
جانب جہنم کے رواں ہوں گے
اور یہ معصوم کلیاں
جو ابھی تک منتظر انصاف کی تھیں
بھت ہی شاد ہوں گی
رب کی پیاری جنتوں میں آباد ہوں گی
بشریٰ سلیم