لبنیٰ صدف

تیز ہوا کے جھونکے سے

میز کے کاغذ بکھر گئے ہیں

اور یاد کے البم کھل گئے ہیں

کچھ یاد کے البم ایسے ہیں

جو روز مجھے تڑپاتے ہیں

وہ یادیں ہیں انمول میری

اپنوں سے میرے سجی ہوئی

میں آ ج تمہیں دکھاتی ہوں

میں آ ج تمہیں بتاتی ہوں

وہ گھر کی دہلیز پر

دروازے کی اوٹ سے

جو میرا رستہ تکتی ہے

اور دیر سے میرے آ نے پر

ہر لمحہ ورد کرتی ہے

اور بے آ واز بولتی ہے

یہ وہ عظیم ہستی ہے

جو ماں میری کہلاتی ہے

دنیا کی دوڑ دھوپ سے

جوتھکا ہارابیٹھا ہے

دن بھر ہماری پیٹ کی خاطر

دھوپ میں ہردم جلتا ہے

ان بوڑھے بازوؤں میں

اب وہ دم   خم ہے کہاں

اب اپنے چاروں بازووں کو

دیکھ دیکھ کر جیتا ہے

ان یادوں میں ہے اک پیارا گھر

خوشیوں کا گہوارہ گھر

جہاں لہجے پھولوں جیسے ہیں

جہاں باتیں کلیوں جیسی ہیں

طنزہے نہ تلخی ہے

نہ کسی کی دل آزاری ہے

سارے دکھ بھی اپنے ہیں

سارے سکھ بھی سانجھے ہیں

جہاں بکھریں ہر دم قلقاریاں

جہاں چہکیں باپ کی پانچ شہزادیاں

پھر دھیرے دھیرے وقت بدلہ

شہزادیاں بن کے چڑیاں

اک اک کر کے اڑ گیں ساری

چھوڑ کے اپنی ساری سکھیاں

میری ماں کے اس گلشن کو

نو پھولوں نے۔ مہکا یا

پھرمالی مالن کے اٹھ جانے سے

یہ گلشن ویران ہوا

پھر اپنی مہک سے ان پھولوں نے

نو چمن آ باد کیے

آؤ آج تمہیں بتاتی ہوں

آؤ آج تمہیں سمجھاتی ہوں

 یہ ایک تلخ حقیقت ہے

جو ہر گلشن پر آنی ہے

ا ور ہر گلشن سے جانی ہے

لبنیٰ صدف