ریطہ طارق

اے نئے سال....

کس نئے نام سے پکاروں تجھے؟

ترے عہد میں نئے دستور ہیں کیا؟

نئے چہرے ہیں یا نئے کٹہرے ہیں؟

کیا کوئی شمع جلی ہے نئی؟

یا کسی دہلیز پہ آکر بجھی ہے پھر سے؟

کیا کوئی ہارکر جیتا ہے کہیں؟

یا کوئ جیت کر ہارا ہے ابھی؟

ترے موسم میں کہیں کوئی بہاراں بھی ہے؟

یا خزاؤں کا پڑاؤ وہی پرانا ہے؟

تری کونپل میں نئے گلاب ہیں؟

تری کلیوں میں نئے انتخاب ہیں؟

نئ تعبیر ہے کیا نئے خوابوں کی؟

نئی روشنائ ہے نئے قرطاس بھی ہیں؟

نئے قلم کار ہیں یا نئے فنکار بھی ہیں؟

نئی تہذیب کے آئینے میں جھانکوں تو ہنسوں؟

یا ترے سورج سے کرنوں میں چمک کو ڈھونڈوں؟

ترے آغازمیں کیا کوئی امید بھی ہے؟

نئی کار عمل کی توفیق بھی ہے؟

اس ارض وطن کے کھلیانوں میں

کیا چمن کے ان غنچوں میں

نئے فیشن کی ماری تہذیب ہی ہے؟

ترے آفاق میں کیا نئے ستارے ہیں؟

یا ان کی روشنی کسی نئے سفر پر ہے؟

اے نئے سال تری زیست میں اتر کر دیکھوں

کون سی صحرا پہ چلاؤں کشتی؟

ترے ہونٹوں پر کس پیاس کا ماتم رکھوں؟

ترے رخسار پہ کس دور کا آنچل رکھوں؟

جل کے جو راکھ ہوا... مدت سے وہ پیہم رکھوں؟

اے نئے سال

تری آمد پہ گریہ یہ مرا کافی ہ

اے نئے سال...

ریطہ طارق

Page 1 of 2