شہادت مقدر بنی

 نزہت ریاض

امی میں بڑا ہو کر بابا کی( طرح فوجی بنوں گا" یہ الفاظ تھےدس سالہ حماد کےجو اسکول جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا اس کی امی نے اس کی

پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا انشا اللہ بیٹا کیوں نہیں ضرور اور اسے اسکول وین میں بٹھا دیا۔

 حماد کا اپنے بابا سے تعارف صرف تصویروں کے ذریعے ہی تھا کیونکہ وہ اس کی پیدائش کے دو مہینے قبل ہی بارڈر پر جواں مردی سے دشمن فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھے ، جب اس کی امی کو ان کی شہادت کی خبر کی گئی تو ان کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہو گئی  اور ڈاکٹرز نے کہا کہ ہم بچے اورماں میں سے کسی ایک کو ہی بچا سکتے ہیں۔

حماد کی ماں ایک فوجی کی بیٹی اور ایک فوجی کی بیوہ تھی ۔ انہوں نے بہادری سے کہا کہ میرے بچے کو بچایا جائے، لیکن اللہ کے کرم سے اور ڈاکٹرز کی کوششوں سے اللہ نے ماں اور بیٹے دونوں کو زندگی بچ گئی مگر حماد پری میچور پیدا ہوا تھا اسی لیے اسے پیدائشی دمے کامرض تھا کبھی بھی اور کہیں بھی اس کی طبعیت خراب ہو جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ہمیشہ اس کا انہیلر یعنی سانس لینے کا پمپ ہوتا تھا ورنہ اس کو سانس لینے میں دشواری ہو جاتی تھی ۔اب پھر آتے ہیں۔ اس دن کی جانب جب حماد کی امی نے اسے اسکول روانہ کیا تھا یہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ کی صبح تھی عجیب بات تھی کہ آج حماد کی اپنی امی سے پہلے ہی آنکھ کھل گئی۔ اس نے امی کو بھی جگا دیا دونوں ماں بیٹے نے فجر وہ بار بار حماد کے غور سے دیکھے جا رہی تھیں حماد نے بھی یہ بات نوٹس کرلی اور امی کے پیروں کے پاس أ کربیٹھ گیا اور بولا امی کیا بات ہے۔ آپ کچھ پریشان لگ رہیں ہیں . حماد کی امی بولیں "ہاں حماد دل بہت اداس سا ہو رہا ہے۔ آج تم اسکول کی چھٹی کر لو". حماد "لیکن امی آج توٹیسٹ ہے،آج تو اسکول جانا ضروری ہے" امی ارے ہاں میں تو بھول ہی گئی" حماد کی امی نے مسکرا کر کہااور حماد کو تیار ہونے میں مدد کرنے لگیں۔

 یہی وہ وقت تھا جب حماد نے کہا تھا امی میں بابا کی طرح فوجی بنوں گا. حماداسکول پہنچا اسمبلی کے بعد سب بچےاپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔ جماد کی ٹیچر نے سب بچوں کو ٹیسٹ پیپر تقسیم کیے. حماد کا ٹیسٹ اچھا ہوا.

 پیریڈ ختم ہوا اور دوسرے پیریڈ کی بیل ہوئی یھی وہ وقت تھا جب بزدل دشمنوں نےآرمی پبلک اسکول پرحملہ کیا معصوم بچوں اور ٹیچرز کو یرغمال بنایا حماد کی کلاس میں دو حملہ آورگھسے تھے۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں جدید قسم کا اسلحہ تھا ان دونوں نے پوری کلاس کے بچوں کو اسکول کےاسٹور روم کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔اس افراتفری میں حماد کی شرٹ کی جیب میں سے حماد کا انہیلر گر گیا. حماد اسے اٹھانے کے لیے جھکا تو پیچھے سے ایک حملہ آور نے اس کے پیٹھ پر بندوق کا بٹ دے مارا اورغرا کربولا ہاتھ اوپر اٹھا کر سییدھے چلتے رہو. اتنی زور سے چوٹ لگنے پر حماد کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔اس بہادر باپ کے بیٹے نے زبان سے اف تک نہ کی اور خاموشی سے آگے بڑھنے لگا۔

 ان بچوں کوکاٹھ کباڑ اور گردوغبار سے بھرے اس اسٹور روم میں دھکیل کر انہوں نے باہر سے کنڈی لگا دی. حماد کو دمہ کا مرض تھا ایسے ماحول میں تو اس کی طبعیت فوری طور پر خراب ہونے لگتی تھی جہاں دھول مٹی ہو. تھوڑی سی دیر گزری تھی کہ حماد کو کھانسی ہونا شروع ہو گئی۔ اس کے کلاس کے بچے اس کی حالت دیکھ کرگھبرا کر اسے سنبھالنے لگے۔

 کلاس کے مانیٹر نے زور سےدروازہ پیٹ ڈآلا کنڈی کھلنے کی آواز آئ اور حملہ آوراندرآیا اور تڑخ کر بولا کیوں شور کر رہے ہو تم لوگوں کو جان پیاری نہیں ہے کیا۔

 مانیٹر نےآگے بڑھ کر حماد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انکل پلیز اس کی حالت نازک ہو رہی ہے۔آپ اسے باہر لے جائیں بے شک ہم سب کو بند رکھیں حملہ آور نے حماد کی طرف دیکھا جس کا کھانسی سے براحال تھا. وہ حماد کے قریب آیا اوراسے زور سےدھکیل کر باہر لے جانے لگا اسٹور روم کے ساتھ طویل راہداری تھی جو اس وقت بالکل سنسان پڑی تھی حماد کی نظر حملہ آور کی کمر کے گرد بندھے بم پر پڑی اسکے ذہن میں تیزی سے سے ایک خیال آیا کہ میں سارے حملہ آورں کا مقابلہ تو نہیں کر سکتا مگرمیں اپنی ذات سے اپنے وطن اور اس تعلیمی ادارے کا حق تو ادا کر ھی سکتا ہوں . بس پھر کیا تھا حماد اپنے کانپتے جسم کے ساتھ اس حملہ آور کے جسم سے لپٹ گیا اور بلند آواز سے کلمہ پڑھتے ہوئے بم کی پن کھینچ ڈالی.

حماد کی بہادر ماں کو آج پھر ایک شھادت کی اطلاع دی گئی اور آج شہید ہوا تھا ان کا ننھا جگر گوشہ حماد جو فوجی تو نہ بن سکا مگر شہادت اس کا مقدر ضرور بن گئی۔