آزادی

 روبینہ اعجاز

ہادی اور ہانیہ جلدی آئیں۔ اسکول کی وین آنے والی ہے۔ ابھی ناشتہ بھی کرنا ہےاور تیاربھی ہونا ہے۔امی نے بچوں کو باورچی خانے سے آواز

لگائی۔ امی۔۔۔۔۔۔ بس ہم آ گئے۔ ہم چڑیوں کے لئےباجرہ اورپانی رکھ رہے تھے۔ دیکھیے نایہ صبح سویرے  ہی سےاٹھی ہوتی ہیں۔

جی بیٹا۔امی کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔امی نے بچوں کو کھانے کی میز پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ یہ جو پرندے ہوتے ہیں نا یہ فطرت پرعمل کرتے ہیں۔ کیسے امی۔ ہانیہ نے پوچھا۔ امی نے جواب دیا ۔ اس طرح کہ یہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ اپنے کام شروع کردیتے ہیں۔ ہادی نے چھوٹی بہن کوسمجھاتے ہوئے کہا۔ پہلےیہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ پھر اپنےکھانے پینے کی تلاش میں سورج غروب ہونےتک میلوں اڑتے ہیں۔ اسی لئےمیں ان کو صبح صبح کھانا دیتا ہوں ۔ جب یہ خوشی خوشی ۔ چوں چوں کرتی ہوئی کھاتی ہیں اورپھر پھر سے اڑجاتی ہیں تومجھے بہت اچھا لگتا ہےاورپتہ ہے امی نے بچوں کو یونیفارم پکڑاتے ہوئے کہا یہ چڑیاں تو اپنے گھرجنہیں ہم گھونسلہ کہتے ہیں ۔اس کے لئے کتنی محنت کر کے تنکہ تنکہ جمع کرتی ہیں۔

ہادی اور ہانیہ تیار ہو چکے تھے کہ وین کی ہارن کی آواز کے ساتھ دوڑتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئے۔ ہادی تو وین میں بیٹھ کر بھی اوپرآسمان پر نظریں جمائے۔ پرندوں کو اڑتا دیکھ رہا تھا اور محظوظ ہو رہا تھا۔۔

دوسرا دن چھٹی کا دن تھا ۔امی نے بچوں کو سویرے اٹھا کر کہا آج ہم بڑی خالہ کے نئے گھرجائیں گے ۔انہیں نئےگھرمیں گئے کافی روزہو گئے ہیں۔

کچھ دیر بعد وہ بڑی خالہ کے بیرونی دروازے پر کھڑے تھے۔۔ گھر کےاندرداخل ہوتےہی مختلف پرندوں کی آوازوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔۔ یہ کیسی آوازیں آرہی ہیں۔۔ہانیہ نے اپنے دو ٹوٹے ہوئے دانتوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہا۔ پتہ ہے ہم نے بہت سارے پرندے پالے ہوئے ہیں۔ خالہ کے بیٹےببلو نے مسکراتے ہوئے خبر دی۔ کچھ۔ تو برآمدے میں ہیں اورزیادہ کے پنجرے چھت پر ہیں۔ بس ہمیں جلدی سے ان کے پاس جانا ہے۔ہادی کی تو دلی خواہش بر آئی تھی۔پھر خالہ جان کے پاس بیٹھنے اور کھانا کھانے کے بعد بچے چھت پر گئے۔خالہ کا بیٹا ببلو تو جیسے پرندوں کا ماہر تھا۔ کسی پنجرے میں طوطے تھےتوکسی پنجرے میں رنگ برنگی چڑیاں۔ ببلو ان کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ہادی اور ہانیہ کا سارا دن خوب گزرا۔ ساتھ ساتھ انہیں اپنے گھر کی پھدکتی۔اڑتی چڑیاں بھی بہت یاد آ رہی تھیں۔

گھر آ کربچوں نے امی۔ابو سےضد کرنی شروع کر دی کہ ہمیں بھی پنجرے لا کردیں۔ہم چڑیاں پالیں گے۔ابو نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے کہا بیٹا پرندے تو آزاد خوش رہتے ہیں۔ ہم اپنی خوشی کے لئےانہیں قید تو کر لیتے ہیں پر انہیں آزادی جیسی نعمت سے محروم کر دیتے ہیں۔۔

پر ہادی اور ہانیہ پر تو چڑیوں کو پنجرے میں رکھنے کا بھوت سوار تھا۔ سو انہوں نےضد پوری کرواکردم لیا۔دودن بعد ان کے گھرمیں چڑیوں کی چوں چوں کی آوازیں آرہی تھیں۔

ہادی اورہانیہ دل وجان سےچڑیوں کی خدمت میں مشغول تھے۔ کبھی پنجرےکوصاف کیا جاتا تو کبھی دانہ پانی رکھا جاتا۔

اسکول میں  نو نومبر کو علامہ اقبال کے حوالےسے پروگرام تھے۔دونوں بہن بھائی علامہ اقبال کی مختلف نظمیں پڑھ رہے تھے کہ ہادی کتاب ہاتھ میں لے کر چڑیوں کے پنجرے کےپاس آ گیا اور نظم۔۔پرندے کی فریاد پڑھنے لگا۔ساتھ ساتھ چڑیوں کو یوں سنا رہا تھا جیسے وہ سن کر سمجھ رہی ہوں۔مگر آخری شعر پر وہ دکھی ہو گیا ۔

آزاد مجھ کو کر دے اے قید کرنے والے

میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے

اس کےامی ابو اس کے پاس کھڑے تھے وہ دیکھ رہے تھےکہ نظم پڑھتے ہوئے کبھی ہادی کی نظر آسمان پراڑتی چڑیوں پر ہوتی تو کبھی پنجرے میں بند چڑیوں پر۔۔ حقیقتاً ہادی اور ہانیہ بہت دکھی لگ رہے تھے۔انہیں پرندے کی فریاد سمجھ آگئی تھی اور وہ اپنے پنجرے میں بند چڑیوں کو آزاد کرنے کا مسمم ارادہ کر چکے تھے۔