ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
کرونا ایک انکشاف سے بڑھ کر ایک چیلنج بنا، اور ہوتے ہوتے اب یہ سر پر لٹکتی جان لیوا تلوار
کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اسے سانحہ نہ بننے دیا جائے، اس کے لیے عوام کو بھی مستعد ہونا ہوگا۔ احتیاط کرنا ہو گی ۔۔۔ یعنی :
سر پر کفن باندھنے کے جذبے سے سر شار قوم کو منہ پر ماسک کا اہتمام کرنا ہو گا ورنہ کفن سر سے کھسک کر سارے بدن تک وسیع ہو سکتا ہے۔
ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ کر بات کریں ۔۔۔ ایک تو اس سے باہم دست و گریبان ہونے کا امکان معدوم ہو جائے گا جس سے باہم الفت بڑھے نہ بڑھے امن و آشتی ضرور بڑھے گی نیز کرونا کو بھی ایک فرد سے دوسرے تک جست لگانے میں شدید دشواری ہو گی۔
تہیہ کر لیں کہ ہمیں ہاتھ دھو کر کرونا کے پیچھے پڑنا ہے ۔۔۔ بیس سیکنڈ سادہ پانی اور سادہ صابن سے نہایت سادگی سے ہاتھ دھونا ہیں اور بس ۔۔۔ اب کرونا آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے !
یہ تو ہوئی احتیاط۔
اب اگر بالفرض اس سب کے باوجود بھی کرونا آ ہی پکڑے تو ہمیں اور بھی چوکس ہو جانا ہے۔ دواؤں کے ساتھ ساتھ آکسیجن کی پیمائش والا آلہ پلزآکسو میٹر بھی خرید لینا ضروری ہے۔ کرونا کے ہنگام یہ حقیقتاً زندگی بچانے والا آلہ ہے، زندگی اور موت کے مابین ایک حدِ فاصل۔ یہ آپ کو آپ کی اکسیجن کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رکھتا ہے جس کی وجہ سے آکسیجن کی خون میں مقدار کے تناسب سے بروقت متعلقہ دواؤں کے استعمال کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور افراتفری یا ہنگامی صورتحال کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔
مثلاً اگر آپ کی آکسیجن کی مقدار 94 سے زائد اور سانس کی رفتار 23 فی منٹ سے کم ہے تو آپ کو آکسیجن سلنڈر یا اسپتال جانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ آپ سانس کی مشقوں اور ہر دو گھنٹے بعد آدھ گھنٹہ پیٹ کے بل لیٹنے سے اپنا آکسیجن لیول بہتر کر سکتے ہیں۔
اس دوران آپ اپنے ڈاکٹر صاحب سے ضرور رابطے میں رہیں، آکسیجن لیول اور اس میں آنے والی بہتری یا ابتری سے انہیں آگاہ کرتے رہیں اور ان کی جانب سے تجویز کیے جانے ٹیسٹ کرواتے رہیں۔ اس اسٹیج میں آپ تھوڑی Pro active اپروچ اپنا کر اپنا آکسیجن لیول بہتر رکھ سکتے ہیں۔ اس مرحلے میں پلس آکسی میٹر کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایک آلہ پورے گھر کے لیے کافی ہے اور آپ خود صحتیاب ہو نے کے بعد یہ پڑوسیوں یا عزیز رشتہ داروں کو بھی دے سکتے ہیں۔
اس ضمن میں ہمارے ہاں ایک اور امر بھی لائق توجہ ہے۔
جب بھی کسی فرد میں کرونا کی تشخیص ہوتی ہے تو اسے آئسولیشن کے نام پر ایک کمرے میں دھکیل کر باہر سے قفل لگا دیا جاتا ہے۔ گویا اب اسے وہیں رہنا ہے۔ باہر کی دنیا سے اس کا تعلق ختم اب اس کی خوراک، دوا وہیں اس تک پہنچا دی جائے گی۔ اس نے باہر نہیں آنا۔ یہ کسی حد تک درست طریقہ ہے لیکن شاید ہم سے یہاں ایک غلطی بھی ہو رہی ہے۔
اگر آپ دنیا بھر میں دیکھیں تو کرونا سے زیادہ متاثرین مڈل اور اپر کلاس کے لوگ ہیں۔ یہ سوسائٹی کا وہ حصہ ہیں جو بند گھروں، بند گاڑیوں اور بند دفتروں میں اپنے شب و روز کا زیادہ حصہ گزارتے ہیں۔ مغرب میں زیادہ بیماری اور جانی نقصان کا ایک بڑا سبب یہی "کلوزڈ ڈور لِوِنگ" اور ائیر کنڈیشننگ کا نظام ہے۔ ہمارے ہاں لوئر کلاس کے لوگ بھی کرونا سے متاثر ہوتے ہیں لیکن ان کی تعداد کے لحاظ سے یہ تناسب بہت کم ہے اور ان میں بھی زیادہ شدید نوعیت کی بیماری خال خال ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے کہ ان کے دن کا بیشتر حصہ باہر کھلی فضا میں گزرتا ہے اور بسا اوقات تو رات کا سونا بھی کچھ ایسے ہی ہوتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ جب بھی ہمارے ہاں کسی کو کرونا تشخیص ہو تو اسے آئسولیٹ تو ضرور کریں ۔ لیکن تازہ ہوا سے اس کا رابطہ منقطع نہ ہونے دیں۔ دن میں صبح و شام کچھ وقت وہ چھت، ٹیرس یا گراؤنڈ میں کھلی فضا میں ضرور بیٹھے۔ تازہ ہوا میں لمبے لمبے سانس لے اور ریلیکس کرے۔ پلس آکسی میٹر پاس رکھے اور دیکھے کہ یہ activity اس کے پھیپھڑوں اور نظام تنفس کے لیے کیسے ایک ٹانک کا کام کرتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ بند کمرے میں بیٹھا مایوسی اور بیمار ہوا کا شکار ہوتا رہے ۔۔۔ اسے وہ آکسیجن لینے دیں جو بالکل مفت اور لامحدود مقدار میں ہمہ وقت میسر ہے۔
کھلی فضا میں لیے گئے سانس شاید سیلنڈر تک کے سفر کو مسدود کر دیں ۔,یا کم از کم محدود ضرور کردیں !