کرن وسیم
زیادہ پرانی بات نہیں جب رات کو آٹھ بجے سارے اہل خانہ ٹی وی کےسامنے ذوق شوق سےبیٹھ کر پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھا کرتےتھے.سڑکوں،بازاروں میں بھی رش کم
ہوجاتا تھا.. اس کے برعکس آج ڈرامہ چینلزکی بھرمار اورڈراموں کی لمبی قطارہے.. لیکن اب میں اور آپ کیا کرتےہیں؟؟ سارے اہل خانہ ایک ساتھ ڈرامہ اوراس کےدرمیان آنےوالے اشتہارات بے فکری سے دیکھ سکتے ہیں؟؟ کیا آج کے ٹی وی چینلز صاف ستھری اورکسی تباہ کن ایجنڈے سے محفوظ تفریح فراہم کررہے ہیں؟؟ ہم میں سے اکثر افراد اس سوال کا جواب انکار میں ہی دیتے ہیں.
جب سےڈرامہ نگاروں کی جگہ ڈائجسٹ نگاروں نے لےلی۔ ڈرامہ اپنے حقیقی ماحول سےنکل کرخیالی دنیا میں جا بسا، جہاں رومان، جنسی لگاؤ، دکھاوا، منفی کرداراورگانوں نے قدم جمالیے۔
پاکستانی ڈرامہ جب 70 اور 80 کی دہائی میں نشرہوا کرتا تھا توسڑکوں پر سناٹا ہوتا تھا،دیکھنے والے انکل عرفی، شہ زوری، افشاں، قباچہ اور اِکا بوا جیسے حقیقت سے قریب تر کرداروں میں خود کو تلاشتے ملتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب ڈرامے میں عورت کا کردار مضبوط اور مستحکم دکھایا گیا۔ یہ کردار ہمارے ماحول اور اقدار کے آٹے سے گندھے ہوتے تھے۔ ان میں زبان کی چاشنی ہوتی اور ہماری اقدار کا رنگ ہوتا۔ ان ڈراموں کی کشش سڑکوں کے سناٹےسے ظاہر ہوتی تھی۔
پاکستانی ٹی وی ڈراموں میں کرداروافکار کی ایک لڑی ہوا کرتی تھی،جواپنی ترتیب نہیں بھولتی تھی۔
لیکن اب ہرچینل صرف عشق و محبت کی افسانوی کہانیاں، غیرحقیقی موضوعات کی چادروں میں لپیٹ کرپیش کررہا ہے اور جس قدراب عورت کے خود مختار ہونےکی چرچا اور کوشش ہے، ہمارے ٹی وی ڈرامے اسی قدر عورت کو محکوم اور لاچار دکھانےپرمصر ہیں.. یہاں تک کہ گمراہ عورت کو بھی مظلوم بنا کردکھایا جاتا ہے..۔ اب ڈرامے فیملی ڈرامے نہیں رہے۔
مثال کے طور پر ایک ڈرامہ سیریل جس میں ایک لڑکی اپنے بہنوئی سےعشق میں مبتلاہے اور ساری حدود پارکرنے کوتیار بیٹھی ہے..کیا یہ ڈرامہ دیکھنے کے بعد لڑکیاں اپنے بہنوئی حضرات کو بھائیوں جیسی عزت دے سکیں گی.. یا بہنوئی اپنی بیوی کی بہن کو سگی بہن جیسی پاکیزہ نظر سے دیکھے گا... کسی ڈرامے میں دیور بھابی کی غیر ضروری قربت اور بےتکلفی پرسسر صاحب کا ٹوکنا اس قدر منفی دکھایا جارہا ہےکہ جیسے یہ بےتکلفی بالکل جائز ہے۔ نامحرم رشتوں میں ۔۔ اتنے نازک رشتوں کو متنازع بنادینا کہاں کی عقلمندی ہے..اس کےعلاوہ بھی کئی ڈرامے ایسے ہیں جو سسرالی اور خاندانی رشتوں کو ڈراؤنے خواب کی طرح باور کروائے جا رہے ہیں ۔۔
کھلے عام شراب نوشی , جوا اور فیشن انڈسٹری کی چکاچوند میں گھرکی چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے ڈرامےاور فیشن کےنام پرعریانیت کو فروغ دیتےایوارڈ شوز ۔۔
اب اہلخانہ اکھٹے بیٹھ کرٹی وی دیکھنے سے کتراتے ہیں۔
جس ملک کے نصاب میں سیکس ایجوکیشن آج بھی متنازع ہے، وہاں کے ٹی وی ڈرامےغیر شرعی ، ناجائز تعلقات اورغیر فطری رشتوں کی کہانیاں دکھانے میں آذاد کیوں ہیں ؟؟؟۔ اب ڈراموں میں ایک مرد، دو عورتوں کے درمیان میدانِ جنگ بنا دکھائی دیتا ہے،یا پھر ایک عورت کو دو , تین مردوں کے درمیان وجہ تنازع بناکردکھایا جاتا ہے۔۔
70 کی دہائی میں ڈراموں میں عورت کا کردارعمل انگیز ہوا کرتا تھا، لیکن پھر وقت کے ساتھ ہمارے ادبی کردار بھی صنفی عدم مساوات کاشکارہوتےگئے۔ خدا کی بستی جیسے ڈرامے میں مرد و عورت کے کردار بہت عام فہم انداز میں پیش کیئے جاتےتھے...‘
حسینہ معین نے جو ڈرامےلکھے، انور مقصود اور ممتاز مفتی نے جوکھیل لکھے،فاطمہ ثریا بجیا نےجن کرداروں کوجِلا دی، وہ ہمارے ارد گرد بکھرےہم آپ جیسےلوگوں کے عکاس تھے۔ اپنے مزاج و ماحول سے مطابقت رکھتے یہ کردار، ہر اداکاراپنی منفرد چھاپ کا مالک تھا۔
لیکن اب ہم ٹی وی ،اے آروائے،جیو،اے پلس , اردو ون اورلاتعداد چینلزریٹنگزکی دوڑ میں معیارکوپیچھے چھوڑچکے ہیں ۔ ..
میڈیا پروڈکشن ہاؤسز میں بڑے بڑے نام رکھنے والے جو کچھ عوام کو دکھارہے ہیں وہ بیرونی ایجنڈا توکہلایا جاسکتا ہےمگر ہمارا کلچر نہیں..
مومنہ درید پروڈکشنز
سیونتھ اسکائی پروڈکشنز
سِکس سگما پروڈکشنز
ایورریڈی پروڈکشنز
یہ پروڈکشن گروپس پوری ڈرامہ انڈسٹری پرحاوی ہیں .. ان کےڈراموں میں فیمینیزم کی گہری چھاپ نظرآتی ہے.. پدرانہ نظام کودقیانوسیت دکھایا جارہا ہے.. اکثر ڈراموں میں مرد کو جذباتیت کا شکار اور کمزور قوت فیصلہ کا حامل دکھایا جا رہا ہے.. عورت کے لیے خاندانی حصار کوظلم کی ایک شکل دکھایا جارہا ہےتو یہ کون سا کلچر، کون سا طرز زندگی ہے،جو مسلط کرنے کی تیاری ہے...
گلی محلوں کےعشق ، ایک عورت کے کئی معاشقے،مذہبی افراد کو ظالم اور منفی کردار کا حامل دکھانا،خاندانی رشتوں کی بدنظری ، ریپ اور زیادتی ،طلاق کو عام دکھانا کیا معاشرے میں مثبت سوچ پیدا کرسکتا ہے؟؟؟
یہ سب وہ موضوعات ہیں جو پاکستانی عوام نہیں دیکھنا چاہتےمگر ٹی وی چینلز پر لگاتار یہی سب دکھایا جارہا ہے..پیمرا جیسا غیر فعال ادارہ اس میڈیا کے گھوڑے کو لگام ڈالنے میں بالکل ناکام ہے..
اس کا ممکنہ حل یہ ہے کہ حکومتی سطح پرایک کل وقتی ادارہ یا کمیٹی ایسی بنائی جائےجومیڈیا کواقداروروایات کی حدود کا پابند بنائے.. ڈراموں اور دیگرپروگرامز کی کل وقتی مانیٹرنگ کرسکے.. بےراہ روی اور بیہودگی سے پاک تفریح لوگوں تک پہنچائی جا سکے .. ریٹنگز کا نظام بھی ان ہی نکات پر مبنی رکھا جائے تاکہ چینلز معیارکو ترجیح دیں..عام لوگوں کی رائے کو اہمیت دیں.. ورنہ جو پاکستانی میڈیا چینلز اور پروڈکشن ہاؤسز کی موجودہ روش ہے یہ ہماری ثقافتی اقدار کےساتھ ساتھ ہمارے خاندانی نظام کو بھی لے ڈوبیں گے... معاذ اللہ....