فاطمہ عمیر
میرے ان تمام اساتذہ کے نام جنہوں نےمجھے زندگی جینا سکھائی۔ نرسری میں مس وجیہہ اس کے بعد میڈم فرحانہ، مس گلشن ،مس ساجدہ مس سمیرا
شائستہ میڈم، سرسہیل سرمدنی اور تمام اساتذہ ۔۔۔۔ ایک انسان کی زندگی میں استاد بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کچھ اساتذہ اپنے مضمون کواتنے اچھے انداز میں پڑھاتے ہیں کہ نہ اچھا لگنے والا مضمون بھی اچھا لگنےلگتا ہے اورکچھ اساتذہ کی سختی ،کچھ کی نرمی اورپیار شامل حال رہتا ہے ۔
کہتے ہیں استاد سبق پڑھا کرامتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لےکرسبق دیتی ہے،لیکن وہ ہی استاد زندگی میں آنےوالےتمام امتحانوں کو کیسے سرکرنا ہے یہ سکھاتا ہے۔ہمارے ہاں استاد کوروحانی والدین بھی کہتے ہیں لیکن جیسے معاشرہ ترقی کی جانب گامزن ہےتو استاد اور شاگرد کے تعلق میں شاید ترقی نہیں ہوپائی جب والدین اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلوانے کے خواہشمند ہوتےہیں تو اچھا اسکول تلاش کرتے ہیں اور بھاری فیس کی ادائیگی کے بعد اگراستاد بچے کی غلطی پرکبھی سرزنش کرے تو وہ والدین بچوں کےسامنے اس کو براکہتےہیں، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
بعض اوقات استاد کے منہ سے اپنے شاگرد کےلیے نکلا ہوا ایک جملہ اس کی زندگی کوبنا بھی دیتا ہےاوربگاڑ بھی دیتا ہے۔ایک صاحب نے بتایا کہ انہیں پڑھنے کا بہت شوق تھا ڈاکٹر بننے کا لیکن ان کے استاد نے ان کے لیےکہا تھا کہ یہ کبھی نہیں پڑھ سکتا وہ کہتے ہیں کہ میرے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں نہیں پڑھ سکتا حالانکہ میں کوشش کرتا تو ڈاکٹربن جاتا۔
کہتے ہیں اگر کسی شخص میں کوئی خامی ہو تو آپ اسے جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ویسا کہیے،ہمیں اپنے بچوں کوتعلیم کی اہمیت کےساتھ ساتھ یہ بھی سکھانا ہےکہ ایک کامیاب انسان وہ نہیں ہوتا جس کے نمبرسب سے زیادہ ہوں بلکہ ایک کامیاب انسان وہ ہوتا ہے جو زندگی کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑنا نہیں بلکہ سب کو ساتھ لیکر چلنا جانتا ہوکیونکہ جب بچے تعلیم سے فارغ ہوکر اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو اگر انہوں نےسب سے آگے نکلنا سیکھا ہوگاتو ان کا رویہ الگ طرح کاہوگا ۔ کوئی مجھ سا نہ دکھےمیں سب سےالگ رہوں ۔سب سے آگے اور ہم سب جانتے ہیں کہ رشتوں میں سب سے آگے نہیں نکلا جاتا سب کو ساتھ لیکر چلا جاتا ہے۔
والدین بھی بچوں کوامتحانات کے زمانے میں ایک طریقے سےٹارچرکرتے ہیں کہ تمہارےسب سے زیادہ نمبرآنے چاہئیں اس چکرمیں امتحانات کے زمانے میں ایک عجیب ماحول بن جاتا ہے۔گھروں میں بچوں کی پڑھائی پراتنا ٹارچر نہیں کرنا چاہیے کہ پچھلے سال میٹرک کے امتحان کم نمبر آنے پرخودکشی ہی کرلے اور ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہےکہ اپنے بچوں میں حلال حرام کی تمیز پیدا کریں اور انہیں یہ بھی بتائیں کہ اگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو پھرکیا کرنا ہے۔
ایک نوجوان نے نوکری ناملنے پرشاپنگ مال کی تیسری منزل سےچھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔اساتذہ اور والدین دونوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی اس طرح سے تربیت دیں کہ وہ حلال کمانے میں کوئی شرم جھجک محسوس نہ کریں۔ بہت سے نوجوان اس لیےایسی ملازمت اختیار نہیں کرتے کہ ان کی تعلیم زیادہ ہے اورملازمت اس تعلیم کی شان کے مطابق نہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ بھائی جب بچپن میں کام سے آکراپنے چھالے پڑے ہاتھ دکھاتے تھے تو امی بہت پیار سے سمجھاتی تھیں کہ بیٹا اللہ تعالیٰ کو محنت کرنے والے لوگ بہت پسند ہیں۔ استاد اور والدین دونوں مل کرایک ایسی نسل تیار کریں جو دین سے محبت کرنے والی طاغوت کو پہچاننے والی اورحقوق اللہ اور حقوق العباد پہچاننے والی ہو کیونکہ جو آج کے بچے ہیں وہ کل کے جوان ہیں اور انہوں نے ہی آئندہ معاشرے کو تشکیل دینا ہے۔