صبا احمد
سرورکونین محسن انسانیت اوررحمت العالمین تمام دکھی دلوں کا مداوا بن کرآئے ۔ربیع الاول رحمتوں برکتوں کا مہینہ جس میں
آپ صہ دنیا میں چودہ سو سال پہلے تشریف لائے ۔خاتم النبین پر آخری کتاب قرآن مجید جومکمل ضابطہ حیات ہےنازل ہوئی ان کی شریعیت جو ان کی عملی زندگی کا عملی نمونہ ہے ۔ ہادی دوجہاں جو مظلوم دکھی انسانیت کے لیےمحبت اور آشتی کا پیغام لائےسسکتی اور ظلمت کے گھپ اندھیروں میں انسانی حقوق سے دنیا کو متعارف کرایا ۔ایک دوسرے کی برسوں پرانی دشمنیاں بھائی چارے میں بدل دیں اور ایثار و قربانی کا درس دیا، محروموں کے حقوق کے ضامن بن کرآئے ۔
آپ صہ نے خود یتیمی کی زندگی گزاری اور یتیموں پر دست شفقت رکھا اور انہیں ان کے حقوق سےبہرور کی ۔آپ صہ نے فرمایا کے یتیم کر سر پر شفقت سے ہاتھ رکھنے والے کے ہاتھوں سے یتیم کے جتنے بال مس ہوں اتنی ہی نیکیاں اس کےحق میں لکھی جائیں گی ۔ یتیم کی کفالت کرنےوالے کو اپنا جنت کا ساتھی قراردیا ۔
اسی لیےیتیم خانےیا گوشہ آفیت جیسےادراے کھولے جاتےہیں۔ مخیر حضرات ان کی کفالت کرتےہیں( بخاری، عن سہد بن سعد) در یتیم کا بچپن بھی اسی طرح عظیم ہے جس طرح آپ صہ کی زندگی عظمتوں سے مالا مال ہے ۔آپ صہ کے والد حضرت عبداللہ کا وصال آپ صہ کی ولادت سے پہلے ہی ہوگیا تھا اور بی بی آمنہ بھری جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں ۔شوہر کے دکھ کے ساتھ آپ صہ کو دنیا میں ولادت دی ۔آپ صہ کی پیدائش کی خبرسے آپ ﷺ کے دادا عبدلمطلب بہت خوش ہوئے ۔ آپ کی پرورش کی ذمہ داری خوش اسلوبی سےادا کرنے کی ٹھانی ۔
ابوجہل آپ کا چچا بھی بہت خوش تھا ۔پیدائش خبر لانےوالی کنیز کوانعام دیا ۔عرب کے رواج کے مطابق بڑے گھرانے کے بچوں کی تربیت گاؤں کی کھلی آب و ہوا میں کی جاتی تاکہ بچے صحت مند، بہادر ہوں اور حرب میں مہارت فصیح حاصل کریں ۔ آنحضور ﷺ کو قبیلہ بنو سعد میں میں داعی حلیمہ کے سپرد کردیا گیا ۔بہار کے موسم میں داعی حلیمہ بھی قبیلے میں آئیں ۔ان کی مالی حالات اچھے نہ تھے، انہوں نے سوچا کے بچے کی کفالت سے کچھ ملے گا تو گھر کے حالات بہتر ہو جائیں گے ۔ان کی اونٹنی کمزور تھی سب داعیوں کو بچے مل گئے، مگر داعی حلیمہ کو نہ ملا ۔
آخر میں آپ کو حضرت محمد ﷺ ملے۔آپ کو معلوم تھا کے آپ یتیم ہیں پھر بھی انہوں نے آپ کو گود میں لیا اور چل پڑیں ۔اوٹنی کے تھن جو خشک تھے ۔ دودھ سے بھرنے لگے ۔ داعی حلیمہ کے گھر خوشبختی نے قدم جمائے ۔آپ تقریبا"ساڑھے چار سال رہے اس پورے عرصے میں آپ وہاں بہت سےتجربات سے گزرے ۔
صحرا میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانا جھاڑیوں اور درختوں سے پھل کھانا مختلف قسم کے کھیل کود اور دوڑ میں حصہ لینا آپ کے رضاعی بہن بھائی اور ماں آپ ﷺ سے بہت محبت کرتے تھے ۔آپ کی غیر معمولی صفات کا ذکر بعد کے واقعات میں کیا اور آپ ﷺ نے بھی ۔آپ کی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ اور آپ ﷺ نے جدائی کے دکھ کو محسوس کیا ۔سیدہ آمنہ رضہ عنہا اپنے لخت جگر کی واپسی پر بہت خوش تھی اور سیدقریش جناب عبدالمطلب کی سر پرستی اور پیار ومحبت کی کوئی انتہا نہ تھی ۔آپ صہ کے سب چچا اور پھوپھیاں آپ صہ سے بے انتہا محبت کرتے تھے ان کی محبت مثال تھی ۔بچہ سب کی آنکھوں کا تارا تھا ۔
ماں بیٹا رات کو ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے سناتےنیند کی آغوش میں چلےجاتے ۔اگلا دن طلوع ہوتا تو ماں کو یوں محسوس ہوتا کے وہ دنیا کی سب سے خوش نصیب ماں ہے ۔اس میں شک کی کوئی بات نہیں کےآمنہ کا در یتیم تخلیق کائناٹ کی وجہ اور رب ذوالجلال کا شاہکار ہے ۔
ہر کام میں اللہ تعالی کی مشیعت اور رضا ہوتی ہے ۔آپ صہ کی عمر چھ برس کی ہوئی تو بی بی آمنہ نے اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کی خواہش اپنے سسر عبدالمطلب سے کی۔ انہوں نےاجازت دی ۔وہ محمد صہ کے ساتھ اپنے ننھیال مدینہ منورہ گئیں اوراپنے بیٹے کو اس کے والد کی قبر پر لے گئیں ۔وہ اپنی کنیز ام ایمن کے ہمراہ دواونٹوں پر سوار ہوکر مدینہ روانہ ہوئیں ۔آپ صہ کا یہ پہلا سفراورآخری سفر اپنی والدہ کے ہمراہ مدینہ کا تھا جس میں ان کی محبت سایہ فگن تھی ۔کون جانتا تھا کے 27 برس بعد ان کو مدینہ ہجرت کرنا پڑے گی ۔
سیدہ آمنہ کا سفر مکمل ہوا۔ قبیلہ خزرج کی شاخ بنونجارپہنچ کرپورے قبیلے نےان کی مہمان نوازی کی دیدہ ودل فرش راہ کیے ۔آپ صہ کےوالد کی قبربنونجار کے ایک مشہور آدمی نابغہ کے بہت بڑے دلان کے ایک جانب تھی ۔ سیدہ آمنہ اس گھر میں ایک مہینہ آکر ٹھہریں ۔ام ایمن بھی آپ کے ساتھ تھی ۔آنحضور اس عرصہ میں بنو نجار کے ہم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ خوب گھومتے پھرتے اورکھیلتے تھے ۔
نبی صہ اپنے بچپن کےواقعات بیان کرتے ہوئےعجیب کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔جب ہجرت کےبعد مدینہ آئے بنوعدی بن نجارکاوہ بہت بڑا محل پہچان لیا اور فرمایا کے اپنے رشتہ داروں کی بیٹی کےساتھ کھیلا کرتےتھے اورایک چڑیا محل کی منڈیر پر آکر بیٹھتی میں ننھیالی بچوں کےساتھ اسےاڑاتے،وہ پھر آکر بیٹھتی میری والدہ ام ایمن کے ساتھ یہ اتری اورمیری والدہ کی قبر یہیں ہے ۔میں بنونجار کے قبیلے کے بچوں کےساتھ تالاب میں نہایا کرتا تھا اور یہیں سے میں نے تیراکی سیکھی ۔
مورخین کےبقول آنحضور ﷺ کوام ایمن دیکھتی رہتی ۔ سعد کے بقول کےکہیں دور نہ نکل جائیں ۔ میں نےایک مرتبہ دیکھا کچھ یہودی ادھر آئے آپ صہ کو کھیلتےدیکھا ۔آپ ﷺ کو دیکھا میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے ۔یہ لڑکا امت کا پیغمبر ہے اور یہی بستی اس کا دارالحجرت ہوگی ۔
مدینہ میں کم وبیش ایک مہینہ قیام کیا۔ بی بی سیدہ آمنہ مکہ کے لیے روانہ ہونے لگیں تو رشتہ داروں نےبڑی محبت اوراحترام سے تحفے تحائف کے ساتھ روانہ کیا ۔جب یہ قافلہ ابواکی بستی پہنچا تو آپ ﷺ کی والدہ امنہ سیدہ کی طبعیت خراب ہو گئی اور وہیں ان کا انتقال ہوا ۔محمد بن عبداللہ پرقیامت ٹوٹ پڑی ساڑھے پانچ سال کی عمر میں اور ام ایمن نے آپ صہ کی بہت دلجوئی کی ۔
ہجرت کے بعدآنحضور ﷺ ابوا میں ایک قبر کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔تمام صحابہ رضی تعالی عنہا آپ کی کیفیت دیکھ کر تڑپ اٹھے ۔ حضرت عمر رضی تعالی عنہا نے آپ صہ کی کیفیت دیکھ کرپوچھا آپ صہ کیوں رورہے ہیں ؟......۔آپ صہ نے فرمایا یہ میری والدہ کی قبر ہے۔ میں نے اللہ تعالی سی اجازت مانگی تھی زیارت کی تو اجازت مل گی ۔ میں نے مغفرت کی درخواست کی وہ قبول نہیں ہوئی ۔ مجھ پر رقت طاری ہو گئی تھی ،سب صحابہ بہت روئے اوراتنا روئے کہ کسی دن نہیں روئے۔
(طبقات ابن سعد ج ۱-۱۱٦,۱۱۷)