اسلام آباد(ویب ڈیسک ،خبر ایجنسی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت
سے سزاو¿ں کے خلاف سابق وزیراعظم نوازشریف کی دونوں اپیلیں خارج کردیں جبکہ فیصلے میں نواز شریف کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں برقرار رکھی گئی ہیں۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے 9 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے ۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف مفرور ہیں اس لیے ان کی درخواستیں خارج کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں نواز شریف واپس آئیں یا پکڑے جائیں تو اپیل بحالی کی درخواست دے سکتے ہیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس جولائی 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 11 اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 8 جب کہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔ بعدازاں 19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو سنائی گئی سزا معطل کرتے ہوئے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
اس کے علاوہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد قومی احتساب بیورو(نیب) نے سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا تھا سابق وزیراعظم نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزاو¿ں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جب کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب نے ان کی ضمانت منسوخ کرانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائرکی تھی ۔
فلیگ شپ ریفرنسز نواز شریف کی آف شور کمپنیوں سے متعلق ہے اور انہی کمپنیوں میں ایک کمپنی 'کیپٹل ایف زیڈ ای' تھی جس میں نواز شریف کمپنی کے چیئرمین تھے۔ اسی کمپنی کی چیئرمین شپ کو بنیاد بناتے ہوئے سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔اس ریفرنس میں بھی نیب کی جانب سے الزام تھا کہ فلیگ شپ کمپنیوں کے اصل فوائد نواز شریف لے رہے تھے اور وہی ان کمپنیوں کے مالک ہیں، جبکہ ایون فیلڈ ریفرنس لندن میں شریف خاندان کے فلیٹوں سے متعلق تھا جس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی تھی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کیا۔