اسلام آباد(ویب ڈیسک ،خبرایجنسی ،فوٹو فائل )نگرا ن وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ امن و امان اور سرحدی صورت حال کے
باوجود الیکشن التوا کا امکان دکھائی نہیں دے رہا، تواتر کے ساتھ کشمیر کیس کا دفاع اور اس کی وکالت مختلف بین الاقوامی فورمز پر کرتے رہیں گے، یہ تاثر بالکل درست نہیں کہ امریکا کسی سازش کے تحت اپنا اسلحہ افغانستان میں چھوڑ کر گیا۔ نہ ہم نے ابتدا میں یہ بات کہی ہے۔نہ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم کسی مملکت خواہ وہ امریکا ہو یا کوئی اور، اس پر کوئی الزام دھر رہے ہیں، ایسا بالکل نہیں ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت نہیں ہو رہی ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے چند معاملات تھے، جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں۔ غیرملکی خبررساں ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں نگر ان وزیراعظم نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کو مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے۔ امن و امان اور سرحدی صورتحال کے باعث سردست عام انتخابات کے التوا کا امکان دکھائی نہیں دیتا لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پا لیں گے اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کروا لیں گے۔
دورہ امریکا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ تنازع کشمیر کا ایجنڈا اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بہت پرانا ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم تواتر کے ساتھ کشمیر کے کیس کا دفاع اور اس کی وکالت مختلف بین الاقوامی فورمز پر کرتے رہیں گے۔ مقبو
انہوں نے ضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، کشمیر کو ایک بڑی جیل کی صورت میں تبدیل کردیا گیا اوروہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو قیدیوں کی طرح محصور کردیا گیا، ان کی آواز دبائی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق ایسی کوئی خلاف ورزیاں نہیں ہیں، جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسی کے نتیجے میں کی جا رہی ہیں۔
میڈیا کی آزادی کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی کا نام بھی لینے پر کوئی پابندی نہیں، کسی کا بھی نام لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ اگر سب سے بہتر نہ بھی سہی، مگر بہت بہتر ضرور ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے، پاکستان کے حکومتی اور ریاستی اداروں کے کردار کے حوالے سے، پاکستان میں معاشی اصلاحات کے حوالے سے کوئی ایسا ایشو نہیں جس میں آپ کو اپنی صدا بلند کرنے کی اجازت نہ ہو یا اسے میڈیا پر چلانے کے مواقع دستیاب نہ ہوں۔
پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد بنیادی طور پر قانونی اور آئینی لحاظ سے الیکشن کمیشن کا کام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے کام کو انتہائی ایمانداری سے سرانجام دینے جا رہے ہیں اور وہ اس پراسس کو پہلے ہی شروع کر چکے ہیںجس کے کچھ آئینی تقاضے وہ پورے کررہے ہیں جس میں کچھ حلقہ بندیوں سے متعلق ہیں اور جلد ہی الیکشن کمیشن دن کا تعین بھی کردے گا اور انتخابات کا اعلان بھی جلد ہو جائے گا۔
نگرں وزیرعظم نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد میں معاونت کے سلسلے میں نگران حکومت کئی اقدامات کر چکی ہے۔ ایسا نظر نہ آنے کا ایک پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ اس کی تشہیر کم ہو رہی ہے لیکن ایسا قطعا نہیں کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ہم کوئی اقدامات نہیں کررہے۔ روزانہ کی بنیاد پر نگران حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مختلف ضروریات کو پورا کرنے اور جہاں تعاون درکار ہو، وہاں ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔
صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کی تجویز سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اس پر حکومت کا اعتراض نہیں بنتا۔ یہ بات پھر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ مینڈیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے، نگران حکومت کا نہیں۔ نگران حکومت نے صرف معاونت کرنی ہے۔ اس سلسلے میں اخراجات یا سکیورٹی کے حوالے سے ذمہ داریاں نگراں حکومت نیک نیتی کے ساتھ پوری کررہی ہے۔
اس سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ کوئی نیا تاثر نہیں ہے، یہ ہر حکومت میں آتا ہے۔ یہ چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی تھاجس پر سلیکٹڈ حکومت کا الزام لگایا جاتا تھا، اس کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت آئی، ان پر بھی یہی الزام لگایا جاتا تھا، اس سے قبل بھی اسی طرح کے الزامات تھے۔ یہ پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات میں ایسے تاثرات ابھرتے ہیں اور جب نئی حکومت آتی ہے تو پھر نئے چہروں اور نئی قیادت کے ساتھ یہ تاثر قائم رہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایک آئینی طریقے سے آئے ہیں۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی تجویز کے ساتھ نگران حکومت قائم ہوئی ہے، ہم اس عمل سے گزر کر آئے ہیں اور اسی کے نتیجے میں آئے ہیں۔صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ تناﺅ بڑھتا جا رہا ہے، پشتون لیڈر ہونے کی حیثیت سے آپ کو طالبان سے بات چیت کرنے میں کیا مشکلات ہیں؟ جس پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا مفاد سب سے اولین ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس دفاع کا حق موجود ہے، ہم اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لئے جہاں جہاں کارروائی ضروری سمجھیں گے، وہ ہم ضرور کریں گے، میں کسی مخصوص آپریشنل فیصلوں سے متعلق بات نہیں کررہا جو پاکستان کر سکتا ہے، مگر جب حالات کے لحاظ سے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی تو ہم وہ فیصلے لیں گے اور وہ نظر آ جائیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔