نئی صبح

 عائشہ ناصر

ہادیہ نےناشتہ ٹیبل پر رکھ کرایک طائرانہ نگاہ ٹیبل پر ڈالی۔ آملیٹ سکے ہوئے تو پھلوں کا تازه جوس، ڈبہ پیک دلیہ پھرعلی کو ناشتہ

کے لیے بلانے کمرے کی جانب چل پڑی۔ وہ آفس جانے کےلیے تیار ہورہا تھا ۔ اس نےٹائی باندھ کر بریف کیس اٹھایا اور ایک نظر اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھتے ہوئے باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
بادیہ بھی اس کے پیچھے پیچھےچل پڑی ۔" ناشتہ کرلیں ... " دھیمے لہجہ میں بولی ۔ہوں ... على نے مختصراً کہا اور ڈائننگ روم کی جانب قدم بڑھادیے ۔ناشتہ کے دوران بھی دونوں کے درمیان خاموشی ہی رہی۔ ہادیہ چپ چاپ اس کو ناشتہ سرو کرتی رہی۔ ایک گلاس فریش جوس اور دو نواے آملیٹ کھانے کے بعد وہ آفس روانہ ہو گیا۔
ہادیہ اور علی کی شادی کو ایک ماہ کا مختصر عرصہ گزرا تھا لیکن ان کودیکھ کر کہیں سے بھی نئے شادی شده جوڑے کا گمان نہ گزرتا ۔ ہادیہ اپنے آپ سے لاپرواہ سادہ سے حلیہ میں گھر کے کاموں میں مگن جبکہ دوسری طرف على اپنے آفس کے کاموں میں مصروف رہتا۔ ابھی بھی ذکیہ بیگم نےہادیہ کو دیکھا تو چونک کر رہ گئیں ۔
الجھے بال سلوٹوں بھرا جوڑا٫ کان اور ہاتھ کسی بھی قسم کے زیور سے خالی آنکھوں اور چہرے پر عجب ویرانی٫ وہ کئیں سے بھی نئی شادی شده نہیں لگ رہی تھی ۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے وہ پڑوس میں ہاجرہ بیگم کے ہاں گئیں تو ان کی نئی نویلی بہو کیسے اٹھلائی اٹھلا ئی پھر رہی تھی۔نک سک سے تیار کاٹن کا خوبصورت کڑھائی والا جوڑا پہنے٫ سلیقہ سے بالوں کو بنائے٫ مسکراہٹ تو گویا اس کے ہونٹوں سے جدا ہی نہیں رہی تھی اور ایک یہ ہادیہ اس نے عجب حال بنا رکھا تھا۔ کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا ہم نے بہو کو خوش نہیں رکھا۔ ان کی روشن پیشانی پر سلوٹوں کا جال بچھ گیا ۔
ہادیہ اور علی کی شادی مکمل طور پر ارینجڈ تھی۔ ہادیہ على کےوالد مشتاق صاحب کے دور پرے کے رشتہ دار جاوید صاحب کی بیٹی تھی۔ جاوید صاحب سندھ کے چھوٹے سے شہر سانگھڑ میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے گھرانے میں وہی پرانے ریت رواج تھے۔ لڑکیاں پڑھتی تو تھیں لیکن لڑکیوں کی اعلى تعلیم کا کوئی تصور نہ تھا۔ہادیہ نے بھی سادہ بی اے کے بعد پڑھائی کو خیر باد کہہ دیا۔ آؤٹنگ, ہوٹلنگ٫ سوشل سرکل ان چیزوں کے ہادیہ نے صرف نام ہی سن رکھے تھے مشتاق صاحب کسی کام سے سانگھڑ گئے تو انہوں نے جاوید صاحب کے گھر قيام کیا۔ ان کا سادہ گھریلو ماحول جاوید صاحب کو بہت پسند آیا۔ خاص طور پر سر کو ڈوپٹہ سے ڈھانپے سادہ سی ہادیہ تو ان کو بہت ہی اچھی لگی۔ اپنےاسی قیام کے دوران انہوں نے ہادیہ کا رشتہ علی کے لیے دے دیا۔ م
شاق صاحب جاو ید صاحب کے برسوں پرانے واقف تھے ۔ رسمی پوچھ گچھ کے بعد انہوں نے اس رشتہ کو قبولیت کی سند بخش دی۔ یوں ہادیہ علی کے نام سے منسوب ہوگئی ۔ذکیہ بیگم کو پتہ چلا تو سر تھام کر رہ گئیں ۔ وہ علی کے مزاج سے بخوبی واقف تھیں۔وہ جانتی تھیں کہ وہ اپنی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ, ماڈرن, ویل آف فیملی سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو شریک سفر بنانا چاہتا ہے اور اب وہ کہاں اندرون سندھ کی سادہ لوح لڑکی ۔ وہ تفکرات میں گھر گئیں، لیکن چند ہفتوں بعد جب وہ منگنی کی رسم کرنے سانگھڑ گئیں تو بہت مطمئن لوٹیں۔ انہیں جاوید صاحب کی فیملی بہت پسند آئی تھی۔ سادہ, مہذب, سلیقہ مند سی ہادیہ تو سیدھی ان کے دل میں اتر گئی تھی۔
ہادیہ اور على کی شادی کی تاریخ طے ہوچکی تھی ۔ بہار کی ایک خوبصورت شام وہ على کے آنگن میں دلہن بن کر اتری ۔ وہ ایک مشرقی لڑکی تھی اس نے اپنے ماں باپ کے اس فیصلہ کو دل سے قبول کیا تھا ۔وہ ایک وفادار بیوی کی طرح على کی خدمت کرتی لیکن وہ اس پر ایک نگاه غلط بھی نہ ڈالتا ۔ اس کے نزدیک وہ ایک ان پڑھ, گنوار, چھوٹے شہر کی لڑکی تھی جو اس جیسے خوبرو, پڑھے لکھے شخص کے ساتھ بالکل نہیں جچتی تھی۔ ہاد یہ نے على کی بے رخی کو اپنا نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ۔ تھوڑے ہی دن گزرے تھے اسے ماں بننے کی نوید مل گئی۔ مشتاق صاحب اور ذکیہ بیگم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا لیکن على کو باپ بننے کی خبر بھی تبديل نہ کر سکی۔
على آج آفس گیا تواس کا کولیگ اورجگری یارسعد موجود نہ تھا ۔علی نےکال کرکےاس کے نہ آنے کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ اسے سخت بخار ہے ۔ وہ آفس سے واپسی پر سعد کے گھر گیا تو وہ گھر پر اکیلا تھا۔
"کیا بات ہے بھابھی نظر نہیں آرہیں ..." على حیرت سے ادھر ادو دیکھتے ہوئے بولا" بس یار! وہ اپنی جاب پر گئی ہے ..." سعد نقاہت سے بول" آج تو لیولے لیتیں ..." على نے کہا۔
" بس یار اس کے نزدیک اپنی جاب کیریئر اہم ہے-"سعد کے لہجےمیں بے زاری تھی۔"
" تمہاری تو سیلری بھی اچھی ہے پھر بھا بھی کیوں جاب کرتی ہیں ؟ " علی نے استفسار کیا۔
" وہ کہتی ہے میں گھر میں بیٹھ کر خود کو ضائع نہیں کرنا چاہتی ..." سعد کی بات پر وہ خاموش ہوگیا۔
ابھی تھوڑے ہی دن گزر تھے کہ على ایک حادثہ میں اپنا بازو اور ٹانگ تر وا بیٹھا۔ ڈاکٹر نے ایک ماہ کے لیے پلستر کر دیا۔علی اپنے ہر کام کے لیے محتاج ہو کر رہ گیا۔ واش روم جانے سے لے کر کھانے تک ووہ ہر کام کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتا ۔ ہادیہ نے اس کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔وہ اس کا ہر چھوٹا بڑا کام خود کرتی ۔ وہ خود امید سے تھی۔ اس کی طبیعت گری گری رہتی لیکن وہ اپنے آپ سے بے نیاز علی کے کاموں میں مگن رہتی۔ ابھی بھی وہ اپنے ہاتھ سے نوالہ بنا کر علی کے منہ میں ڈال رہی تھی۔ علی نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا کتنی پاکیزگی تھی اس کے چہرے پر،کتنی وفادار تھی وہ علی کے ساتھ کہ اس کی بے رخی کے باوجود اس ک خدمت کررہی تھی۔ علی نے اپنے پلستر زدہ ہاتھ سے اس کا نرم وناز ک ہاتھ تھام لیا ۔ وہ نوالہ ہاتھ میں لیے حيران رہ گئی ۔ علی اس کی حیرت کو محسوس کرتے ہوئے بولا :" ہادیہ میں اپنے گزشتہ رویہ پر تم سے معافی چاہتا ہوں ۔" اس کے لہجہ میں پیشما نی واضح تھی۔ہاد یہ نے نوالہ پلیٹ میں رکھا اور اس کے پلستر زدہ ہاتھ کو اپنے چہرے سے لگا لیا ۔ على مسکرا اٹھا اب کل اک نئی صبح ان کی منتظر تھی ۔