انوکھی سزا

مترجم :ماہم احسن

زنیرا کی یہ عادت بلکل بھی اچھی نہیں تھی۔ایک دفعہ کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ زنیرا اپنی کھڑکی سےکچھ دیر تودیکھتی رہی مگر پھر

اس کی زبان میں کھجلی ہونے لگی۔ تم سب بالکل غلط کھیل رہے ہو۔ وہ ان کے معاملے میں اپنی ناک گھسارہی تھی۔اس نے ان کا سارا کھیل خراب کردیا ۔
زنیرا تم پلیز یہاں سے چلی جاؤ۔ ہمیں پتا ہےکہ کیسے کھیلنا ہے۔ " ایک بچہ زچ ہو کر بولا۔ تم ہمیشہ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرتی ہو۔ " دوسرا بچہ جھنجھلا کر بولا۔اف زونیرا !! تم کس قدر بدتمیز ہوتی جارہی ہو۔ خبردار جو اب میرے معاملات میں بولی۔ مجھے کام کرنے دو۔" اس کی امی اسےڈانٹتے ہوئے بولیں۔ جب اس نے اپنی امی کو یہ بتانا شروع کردیا کہ یہاں سے ڈسٹنگ نہیں کی اور دیوار پر لگی تصویر کتنی میلی ہو رہی ہے۔۔
میں نہیں چاہتی کہ تم میرے کاموں میں اپنی ناک گھساؤ۔ میں دیکھ سکتی ہوں کہ کہاں کہاں سے ڈسٹنگ نہیں ہوئی اور یہ تصویر بھی مجھے نظر آرہی ہے میں اس کی صفائی خود کر لوں گی۔"
”اوہ گندی بچی زنیرا ، برائے مہربانی تم اپنے گھر جاؤ۔ مسز براؤن جوکہ زنیراکی پڑوسن تھیں غصے سے بولیں۔" تمہیں قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ تم مجھے بتاؤکہ میرے باغ میں کون سے پھولوں کو پانی کی ضرورت ہے اور کہاں کہاں سے گھاس بڑھ گئی ہے اور اسے کاٹنے کی ضرورت ہے۔ تم ہمیشہ دوسروں کے معاملات میں اپنی ناک گھساتی ہو۔ "
اس وقت تو زونی وہاں سے چلی گئی لیکن اس کا ابھی تک دوسروں کے معاملے میں ناک گھسانے کا ارادہ تھا۔
ایک روشن صبح جب وہ پیدل اسکول جارہی تھی تو اس نے دیکھا وہ پانچ چھوٹی چھوٹی مخلوق تھیں، جنہیں آپ بونوں کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ بونے ایک بڑی سی ٹوکری کو ایک خوبصورت ربن سے لپیٹ رہے تھے ۔ اچانک زنیرا ان کے پاس آپہنچی اور اس سے پہلے کہ بونے کچھ کہتے وہ مزے سے ان سے ٹوکری چھین کرخود الٹا سیدھا ہاتھ مارنے لگی۔
" تم غلط لپیٹ رہے ہو اس طرح ربن نہیں لپٹ سکتی۔ " وہ مزے سے بولی۔
" تم اسے خراب کردوگی۔" ایک بونا چیخا۔
" ہمیں ہماری ٹوکری واپس کردو" دوسرا بونا تنک کر بولا۔
" تم ہمارے کام میں کیوں اپنی ناک گھسارہی ہو گندی لڑکی۔ تیسرابونا غصے سے بولا۔
زنیرا کو بھی غصہ آگیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بونوں کی مدد کر رہی ہے، لیکن جب بونوں نے اس کو برا بھلا کہا تو اس نے وہ ٹوکری اٹھا کر زور سے پھینک دی۔اس نے ٹوکری کو اتنے زور سے پھینکا تھا کہ ٹوکری کئی جگہ سے ٹوٹ گئی اور اس پر جو تھوڑا سا ربن بونوں نے لپیٹا تھا وہ بھی اتر گیا۔ زنیرا ٹوکری ایک طرف پھینک کر یہ جا وہ جا، جبکہ بونے بے چارگی سے کھڑے رہ گئے۔
بونوں نے سوچا کہ زنیرا کو سزا دینی چاہیے۔ انہوں نے ایک خواہش کی ۔ اور ان کی خواہش سچ ہوگئی۔۔۔۔۔۔
آج اسکول میں اسے اپنی استانی سے ڈانٹ پڑی تھی۔وہ اداسی سے گھر کی طرف رواں رواں تھی کہ اچانک اس کی نظر دو چھوٹے لڑکوں پر پڑی۔ وہ دونوں ایک گملے میں بیچ ڈال رہے تھے۔
" اوہ ! تم کس قدر بے وقوف ہو ۔ گملے میں بیچ اس طرح نہیں ڈالتے۔ اس گملے میں پودا کبھی نہیں اگے گا۔ جب تک تم میرا طریقہ نہیں اپناؤگے۔ اس نے ایک لڑکے سی بیچ زبردستی چھینتے ہوئےکہا۔
" ارے اس کی ناک تو دیکھو ہاہاہاہاہا !!! " چھوٹا لڑکا پیٹ پکڑ کر ہنس رہا تھا۔
" ہاہاہاہا!! اس کی ناک بالکل ہاتھی کی سونڈ کی طرح لمبی ہوگئی ہے۔ "دوسرے لڑکے کی آنکھوں میں ہنستے ہنستے آنسو آگئے۔
زنیرا کو ایک لمحے کے لئے کچھ سمجھ میں نہیں آیا اور جب سمجھ میں آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس نے اپنی ناک کو ہاتھ لگایا تواس کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ بیچ پھینک کر بدحواسی میں گھر کی طرف بھاگی۔ اس کے ساتھ بہت برا ہوا تھا۔ وہ گھر پہنچی تو اس کی امی بھی پرشان ہوگئیں۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ یہ حادثہ کیونکر ہوا؟ اس نے ساری کہانی بتائی۔
" ہائے زنیرا ! یہ تم نے کیا کیا ۔ میں تمہیں کتنا سمجھاتی تھی لیکن تم نے کبھی میری بات کو سیریس نہیں لیا۔ اب دیکھ لیا ماں کی بات نہ ماننے کا نتیجہ!"
امی نے اس کی بڑی بہن لیزا کو فون کرکے بلالیا۔جو کہ پڑھائی کے سلسلے میں ہاسٹل میں رہائش پذیر تھی۔
" امی میرا خیال ہے آپ اسے ایلنا آنٹی کے پاس لے جائیں۔ میرا خیال ہے وہ بہتر طریقے سے اس معاملے کو دیکھ لیں گی۔ "
" ہاں یہ بالکل صحیح تجویز ہے" امی رضامند ہوگئیں، جب وہ ایلنا آنٹی کے پاس پہنچ گئیں تو وہ خوب ہنسیں۔" تم اسی قابل تھیں زنیرا"
" لیکن اب یہ بے چاری کیا کرے گی؟ امی چیخ اٹھیں۔
"اب کچھ نہیں ہوگا۔بس اس کا ایک ہی حل ہے کہ دوسروں کے معاملے میں اپنی ناک گھسانا بند کردے۔ تو بونوں کی بدعا بھی ختم ہو جائے گی اور اس کی ناک بھی اصلی حالت میں واپس آجائے گی۔ ایلنا آنٹی اپنی ناک پر چشمہ ٹکاتی ہوئی بولیں۔
زنیرا واپس گھر آگئی۔
" مجھے دوسروں کے معاملات میں میں بے جا اپنی ناک گھسانےکی حماقت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اب میں کبھی کسی کے معاملے میں ناک گھسانے کی بے وقوفی نہیں کروں گی۔ " وہ اپنی لمبی ناک کو آئینے میں دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ بے چاری زنیرا اپنی لمبی ناک کہ وجہ سے مزاق کا نشانہ بنتی رہی۔
آہستہ آہستہ اس کی ناک واپس اپنی حالت میں آگئی تھی۔ اس کی امی نے تنگ آکر اس کو ایک نئے اسکول میں داخل کروادیا۔ اب وہ ایک سلجھی ہوئی لڑکی بن چکی ہے۔ جو کسی کے معاملے میں اپنی ناک نہیں گھساتی۔ اب پڑھنے والوں سے ایک سوال کیا آپ بھی دوسروں کے معاملے میں اپنی ناک گھساتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو یہ کہانی آپ کے لئے ہے