جنت کاراستہ

رضوانہ عمران

آ ج دونوں بہنیں بہت خوش تھیں بہت عرصے کے بعد ان کی پھپھو اپنے بچوں کے ساتھ ان کے گھر آ رہی تھیں.ان دونوں بہنوں میں

اقصیٰ بڑی جس کی عمر تقریباً 7 سے 8 کے درمیان تھی جبکہ چھوٹی کی عمر تقریباً 5 سال کی جبکہ پھپھو کے بچوں میں سمرہ کی عمر بھی لگ بھگ 8 سے 9 تک اور بیٹا تقریباً ساڑھے چار سال کا ہوگا.بہرحال آ ج تو جیسے بچیوں کے عید کا دن تھا نعیمہ یعنی ( امی جان ) کے ساتھ فجر کی نماز کے بعد سے ان کا ہر کام میں ہاتھ بٹانا اور یہاں تک کے کچن میں بھی مل کر چھوٹے چھوٹے کاموں میں امی کی مدد کرنے میں بڑی خوشی سے آ گے آ گے تھیں.دادی جان یہ سب دیکھ کر پیار سے مسکراتی جا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ شاباشی بھی دے رہی تھیں.آ خر کار انتظار ختم ہوا اور دروازے پر لگی ڈور ںیل بج اٹھی .دونوں بہنوں سب کو سلام کیا اور پھر سب نے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا اسی دوران نعیمہ نے ٹیبل پر کھانا لگانا شروع کر دیا نعیمہ نے سب بکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چلیی بھئ کھانا لگ چکا ہے سب ہاتھ دھو کر آ جائیں پر عمر صوفیہ کا چھوٹا بیٹا جو تقریباً 4 سال کا تھا اس پر تو جیسے اس بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا تھا اقصیٰ نے اس کو پیار سے کہا چلو میں تمہارے ہاتھ دھلوا دیتی ہوں جس پر اس کی پھپھو نے منع کرتے ہوئے کہا رہنے دو بیٹا اقصیٰ یہ نہیں مانے گا اور پھر اس ٹیبلیٹ کے بغیر اس کا کھانا بھی حلق سے نہیں اترے گا اسے فرح بعد میں کھلا دےگی .دادی یعنی عمر کی نانی نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھ کہا صوفیہ کیوں دادی نے اپنی بیٹی صوفیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ان بچوں کو کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی عادت ڈالو ابھی دادی کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ منہا جھٹ بیچ میں بولی جی پھپھو امی نے بتایا تھا کہ کھانے سے پہلے ہاتوں کا دھونا سنت ھے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کرنے کا حکم دیا ہے نعیمہ نے منہا کو ٹوکا بری بات ھے منہا بڑوں کے بیچ میں نہیں بولتے دادی پھپھو سے بات کرہی ہیں ناں ؟ صوفیہ ارے نہیں بھابھی کوئی بات نہیں اچھی بات ہے کہ اس نے اس سنت کو یاد رکھا ہواھے ایک ہمارے بچے ہیں کان پر تو جوں ہی نہیں رینگتی دادی نے ازراہ مذاق کہا ہاں تو کانوں میں ائرفون جو اٹکے پڑے ہیںبہر حال سب نے مزے سے کھانا کھایا اور سب تھوڑاآ رام کرنے کے لیے کمروں میں چلے گئے چونکہ ایک عرصے بعد اقصیٰ اور منہا کو اپنے کزنز سے ملاقات کا موقع ملا تھا اس لیے وہ ان سے باتیں کرنے اور مل کر بیٹھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتیں تھیں لیکن فرح کو اپنے موبائل اور عمر کو اپنی ٹیبلیٹ میں زیادہ دلچسپی تھی ، پھر بھی اقصیٰ کھانے کے بعد فرح کو اپنے کمرے میں لےآ ئی اور اپنی کتابوں کی الماری دکھاتے ہوئے بولی میرے پاس بہت پیاری پیاری کہانیوں کی کتابیں ہیں اور پتہ ھے اس کے علاوہ میرے پاس احادیث اور اسلامی تعلیمات کی بھی کتابیں ہیں تم بھی پڑھوگی تو تمہیں اچھا لگے گا اور مزہ آ ئےگا
فرح نے ایک نظر ترتیب سے رکھی کتابوں پر ڈالی اور حیرانی سے پوچھا کہ اقصیٰ باجی آ پ کو یہ سب پڑھنے کا وقت کیسے مل جاتا ہے اور ویسے بھی میرا تو خیال ھے کہ اب ان کتابوں میں کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اب ہر کہانی اور ہر چیزموبائل فون میں موجود ہے یہ طریقہ آ سان ھے کیوں سہی کہا ناں میں نے ؟
فرح نے جیسے مسلہ کا حل پیش کر دیا ہو.اقصیٰ نے فرح کو بہت پیار سے دیکھتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھایا اور کہا میری پیاری بہن میری تم اپنی جگہ ٹھیک ہو لیکن میری امی کہتی ہیں کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہوتی ہیں اور تم ذرا سوچو کہ تمہارے موبائل کے ائیر فون تمہارے کانوں میں
لگانے کی وجہ سے تمہیں اذان کی آ واز بھی سنائی نہیں دیتی اور اس کی چکا چوند روشنی میں تمہیں نمازکے وقت کے گزرنے تک کا احساس نہیں ہو پاتا
فرح اقصیٰ کی باتوں کو بڑے غور سے سن رہی تھی اس نے پوچھا تو کیا آ پ کے موبائل استعمال نہیں کرتیں ہیں
نہیں مجھے نہیں لگتا کہ مجھے اس کی خاص ضرورت ہے اور ویسے بھی گھر میں فون موجود ہے امی ابو کے پاس بھی موبائل فون ہیں ہم بہنوں کو ابھی اس کی اجازت نہیں ہے دوسری طرف عمر منہا کو اپنی ٹیبلیٹ پر مختلف گیمز دکھانے میں مصروف تھا کچھ دیر تک تو منہا کو بھی دیکھنا اچھا لگا لیکن جلد ہی اس کا دل بھر گیا بولی عمرتمہارے سر اور گردن میں درد نہیں ہوتا اتنی دیر تک گیمز کھیلتے ہوئے ؟عمر نے نفی میں سر ہلا کر جوب دیا منہا نے کہا چلو عمر اب یہ رکھو ہم ایک دوسرے کو کوئی اچھی سی کہانی سنانے ہیں اور پھر ہم سامنے پارک میں کھیلنے چلیں گے ( عمر ) ارے مجھے نہیں کوئی کہانی سنی ھے اور نہ ہی کوئی کہانی آ تی ھے اور باہر جا کر کھیلنے کی مجھے عادت نہیں ھے میں تو گھر میں بھی اسکول سے آ کر ٹیبلیٹ کھیلتا ہوں پھر قاری صاحب آ جاتے ہیں اور شام کو ٹیوشن چلا جاتا ہوں واپس آ کر پھر سے گیمز لگا لیتا ہوں بڑا مزاآ تاھے میری ٹیبلیٹ میں بہت سارے گیمز ہیں ( منہا ) ارے بھائی کچھ کھاتے پیتے بھی ہو یا صرف یہی ؟
عمر نے منہا کی اس بات پر زور سے قہقہہ لگایا پتہ نہیں وہ کیا سمجھا کیا نہیں .منہا کی سمجھ سے بالاتر تر تھا عمر کا ٹائم ٹیبل ( بہر حال دونوں خاندانوں میں مائول کا فرق واضح طور پر مختلف تھا دوسرے دن رات کے کھانے کے بعد بعد دادی جان نے اپنی بیٹی صوفیہ کو اپنے کمرے میں بلایا اپنی تسبیح کو ایک طرف رکھتے ہوئے اورچشمے کو سنبھالتے ہوئے بیٹی سے یوں گویا ہوئیں بیٹی جب تم چھوٹی تھیں تم بھی ہر بچے کی طرح شرارتیں بھی کرتی تھیں اور ضدیں بھی لیکن ایک ماں ہونے کی حیثیت میرے اوپر تم بچوں کی پرورش اور بہترین تربیت کی ایک بڑی ذمہ داری تھی جو مجھے دین اسلام کے مطابق پوری کرنا تھیں اور ور جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا میں نے کیا صوفیہ نے بات کو غور سے سنتے ہوئے کہا امی جان خیریت تو ھے آج اچانک پرانی باتوں کو یاد کرہی ہیں کوئی غلطی ہو گئی ھے کیا مجھ سے، نہیں تم سے نہیں مجھ سے کہیں غلطی ہو گئی تھی یا شاید میری تربیت میں کوئی کوتاہی رہی جو تم اپنے گھر کو جنت جیسا بنانے میں کمزور رہیں کیا یہاں سے جاکر ڈارے طور طریقے بھول گئیں ؟ اپنی بھابی کو دیکھو تمہاری طرح وہ بھی ایک پڑھی لکھی اور بڑے گھر سے آ ئی ہوئ لڑکی ھے اس نے اپنے شوہر ہر خوشی کا بھی ہمیشہ پورا خیال رکھا میری خدمت میں بھی کوئی کمی نہیں اٹھا رکھی اور نماز قرآن کے اہتمام کے ساتھ ساتھ بچیوں کی بہترین تربیت بھی کر رہی ھے اور عزیز و اقارب کی خبر گیری کے ساتھ وہ مہمان نوازی میں بھی سب سے آ گے ھے اور تم تم کیا کرہی ہو اپنے آپ کو اور بچوں کو ہاتھوں کی مشینوں کے حوالے کردیا کیا دنیا موبائل سے شروع اور اسی پر ختم ہو تی ھے صوفیہ تو جیسے آ ج کسی کٹہرے میں کھڑی تھی سر کو جھکا ئے کسی مجرم کی طرح شرمندہ شرمندہ دادی نے اپن بات کو جاری رکھتے ہوئے بیٹی اپنے آپ کو بدلو جب سے تم آ ئی ہو نہ تو تمہارے پاس وقت ھے سکون گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے کا یاتو شاپنگ مال یا پھر موبائل پر خوش گپیاں اور یہی حال تمہارے بچوں کا ہے کسی چیز سے دلچسپی نہیں رکھتے سوائے گیمز کے,یاد رکھو گھر کو جنت عورت ہی بناتی ھے بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کا اولین فریضہ ہے اور تربیت ماں پر فرض ہے اچھی تربیت سے ایک مضبوط خاندان بنتا ہے اور ایک مضبوط خاندان سے مستحکم معاشرہ وجود میں آ تا ھے اپنے شوہر کی دلجوئی کرو تاکہ تم پنے آ پ محفوظ عورت تصور کرسکو جب عورت مرد کے ہر دکھ سکھ میں برابر کھڑی ہوتی ہے تو مرد بھی اپنے آپ کو اور مضبوط سمجھتا ھے اپنے بچوں اور شوہر کو وقت دو ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ ان کو بتاؤ کہ جس طرح گھر میں ساتھ ملکر رہنے سےگھر جنت، خاندان مضبوط، اور معاشرہ مستحکم ہوتا ہے صوفیہ کی آنکھوں میں آ نسو بھر آ ئے اسے لگا جیسے وہ خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی ایک کمزور عورت تھی اس نے اللہ سے معافی مانگی اور ماں سے سچے دل اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا وعدہ کیا , آج پھر ایک دیندار ماں نے دوسری ماں کو جنت کا راستہ دکھا دیا تھا