ماہین خان
انسان كو تمام مخلوقات میں ایک نمایاں اور اونچا مقام حاصل ہے ۔ اور یہ مقام صرف علم کی بنیاد پردیا گیا ہے ۔حضرت آدم عہ
تخلیق کیے گئےاوران کو سب سےپہلے جس چیزسے نوازاگیا وہ عقل وشعورکےساتھ تعلیم تھی ۔ تعلیم تھی چند چیزوں کی جن کے نام سکھائے گئے اور تمام مخلوقات پر فوقیت دی گئی ۔ اس کے بعد عقل وشعور کا بھی ایک امتحان جنت میں ایک درخت کے پھل سے دیا گیا ۔
وقت بدلتا ہے اور نسل در نسل تعلیم اولادآدم کی زندگی میں اہمیت کی حامل بنتی جاتی ہے ۔ پھر غارحرا کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے جہاں نبی اُمیﷺ پر وہی اترنے کی تیاری ہورہی ہے ۔۔۔۔۔ پڑھنا نہیں آتا لیکن رب کی طرف سے تعلیم کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور پھر رحمت للعلمین ﷺ کو تمام عالم کےلیے علم کا سرچشمہ بنا دیا جاتا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ تعلیم انسان کا اصل زیور ہے جو انسان میں انسانیت کواجاگر کرتی ہے،لیکن اقبال نے کس خطرے کے پیش نظر اتنی خطرناک بات کہ دی
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی ولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
کیسے تعلیم اللہ سے دور کرسکتی ہے جبکہ یہ تو اسلام کی خاصیت ہے۔ کیسے تعلیم اللہ سے دور کرسکتی جبکہ یہ تو انبیاء کی میراث ہے ۔
درحقیقت ایسا ہی ہے ۔ آج کی نسل کی ذہن سازی کچھ اس طرح کردی گئی ہے کہ علم اور انسان کے وجود میں آنے کا مقصد جو تخلیق آدم کے وقت پر بار بار دہرایا گیا تھا ، کہ ہمارا ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہو اور ہمیں پھر اس بات کا جوابده ہونا ہے کہ ہم نے کیا بہتر اعمال کیے ۔ اس بات کی رو سے ہم دنیا میں جو بھی عمل کریں گے وہ جنت کی طرف بڑھنے کا ذریعہ ثابت ہوں گے ۔ ایک مسلمان ہما وقت داعی دین ہے تو اس کا پورا وجود اس بات کی شہادت دے کہ وه دنیا کے جس میدان میں بھی آگے بڑھے وہاں اس کا مقصد صرف رضائے الہی ہے ۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں , میں اسی لیے نمازی
علم حاصل کرنے کی تو یہ اہمیت ہے کہ حضور اکرمﷺ اصحاب صفہ کو باقی تمام مہاجرین و انصار پر فوقیت دیا کرتے تھے ۔ لیکن اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جاۓ تو تعلیم حاصل کرنا محض اپنا میعار زندگی بلند کرنا ہے ۔ دیکھا جاۓ تو جہاں اس سوچ سے معیار زندگی بلند ہوتا ہے وہیں انسان میں پیسہ بنانے کی حوس جاگتی ہے ساتھ ہی انسان ایک معاشرتی و اخلاقی جانور بن جاتا ہے ۔
آج کے طلباء تعلیم حاصل کرنا صرف ڈاکٹر بن جانا، انجنئیر بن جانا، یہ کوئی ہائی پروفائل ایجوکیشن حاصل کرلینا سمجھتے ہیں ۔ میٹرک میں قدم رکھا نہیں ہوتا کہ والدین کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کا دباؤ بڑھتا جاتا ہے ۔۔۔۔
یہاں میرا مقصد صرف خاص خاص پروفشنز کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ میرا نشانہ تو وه ذہنیت ہےجو آج کےمعاشرے کا بری طرح حصّہ بن چکی ہے ۔
ڈاکٹر بننے والے مستقبل کے معماروں سے جب پوچھا جاتا ہے۔آپ نے ڈاکٹر کیوں بننا ہےتو انگریزی میں جواب آتا ہے ۔۔۔
"We want to serve humanity..."
یہاں سوچنے کا مقام ہے کہ کیا صرف اس پروفیشن سےمنسلک ہو کر ہی انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے ؟؟؟؟
انسانیت کو تو اس سیدھے راستے کی ضرورت ہے جو ہمارے نبی کریم ﷺ نے چودہ سو سال پہلے ہمیں قرآن کی تعلیم کے ذریعے بتا دیا تھا ۔
بہت عام ہوچلا ہے کہ طلباء اپنی پروفشنل تعلیم میں تو اپنا قدم بڑا پھونک پھونک کر رکھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ وه پیدا کس مقصد کے لیے ہوئے تھے ۔۔۔
یہاں پر صرف یہ بات خاطر میں لائی جاتی ہے کہ بس ہم پڑھ لیں اور جلد از جلد ہم اچھی ہائی فائی زندگی گزارنے لگیں ۔
اور جہاں یہ مقصد پورا ہوجاتا ہے تو وہاں اٹھنا بیٹھنا ہی بدل جاتا ہے ۔ لڑکیوں کے سروں پر حجاب کے نام پر ایک گردن کھلی سٹال لٹک رہی ہوتی ہے اور لڑکے ڈیمیج پینٹس کے ساتھ مراثیوں کی طرح گلے میں چینیں ڈالے آوارہ گردی کرتے نظر آتے ہیں اور کہنے کو وه ہائی ایجوکیٹڈ پروفیشنل ہوتے ہیں! لایو کانسرٹس منعقد کیے جاتے ہیں ۔ مخلوط تعلیم کو بہت عام سمجھا جاتا ہے ۔
ایسے میں بس یہ شعر ساری صورتحال کو واضح کردیتا ہے ۔۔۔
اس علم سے بے علم ہی رہتے تو تھا بھلا
وه ہو رہا ہے جو نہیں لکھا کتاب میں
واقعتاً یہ علم ہمارے لیے فتنہ ہی ہے جس کے پیچھے آج ہم لوگ چل پڑے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں آج کی نسل کے سامنے ایسے تعلیمی میدان لاکر رکھ دیے گئے ہیں جہاں ان کی دینی تربیت تو درکنار دنیاوی تہذیب و تمدن بھی نہیں سکھایا جاتا ۔ ساتھ ہی سیکھنے والوں کی بھی بہت کمی ہے ۔
غرض یہ تعلیم یافتہ طبقہ اب باقی باقی آنے والی نسل کے لیے گائیڈ لائن بننے کی بجاۓ ایک ناسور بنتا جارہا ہے ۔ یہ سب کہنے میں تو بہت آسان ہے لیکن یہ زہر آہستہ آہستہ ہماری سوچ میں شامل کیا جارہا ہے اور ہم اپنا اصل مقصد بھولتے جارہے ہیں ۔
اب ہمارا کام ہے کہ ہم بحیثیت طالب علم اپنی اس علم کی پیاس کو صحیح طریقے سے بھجائیں اور زندگی کے ہر میدان میں اپنا تخلیق کا مقصد یاد رکھیں ۔
نظر سپہر پر رکھتا جو ستارہ شناس
نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ
خودی كو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاہ