حسد بری بلا ہے

عمیمہ خان

جنگل کے کنارے پر ایک خوبصورت تالاب میں ایک کچھوا رہا کرتا تھا اس کی رہائش یعنی تالاب کے قریب

خوبصورت اور پھل دار درخت تھے جن پر مختلف پرندے بسیرا کرتے، درخت سے اڑتے اور پھر واپس آکر بیٹھ جاتے بعض کی پرواز بہت بلند ہوتی کچھوا دیکھتا کہ وہ بادلوں سے بھی اوپر پرواز کر رہے ہیں گویا بادلوں سے کھیل رہے ہیں کچھوا یہ سب دیکھ کر بہت دکھی ہوتا اور سوچتا کہ کاش میرے بھی پر ہوتے اور میں بھی اڑ سکتا، بلندی تک جا کر جنگل کا نظارہ کرتا بادلوں سے اٹکھلیاں کرتا، اپنے گھر (تالاب) کا دلکشن منظر دیکھتا۔

کچھوے کی اڑان کرنے کی خواہش اسے اداس رکھتی وہ پر نہ ہونے پر قدرت سے شکوہ کرنے لگتا اس میں ناشکری کی کیفیت پیدا ہو جاتی۔ وہ کہتا میری پیٹھ پر موٹے خول کے بجائے اگر اللہ تعالیٰ پر لگا دیتا تو کیا بات تھی اس خول کا کیا فائدہ۔ وہ فائدے اور نقصان کا خود ہی فیصلہ کرنے لگتا ناشکری اور اللہ کی نعمتوں کے انکار کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا اسے تالاب میں تیرنا اچھا نہیں لگتا بلکہ اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھ کر حسد کا جذبہ ابھرنے لگتا۔

ایک روز کچھوے کے ذہن میں آیا کہ وہ اڑنے کے لیے کسی سے مدد لے وہ اپنے دوست گدھ کے پاس پہنچا اور کہا کہ بھائی ایک پریشانی ہے گدھ نے پوچھا تم کو کیا پریشانی ہے؟

تم تو بڑے مزے سے تالاب میں تیرتے پھرتے ہو۔ کچھوے نے کہا کہ دیکھو پرندے کیسے اطمینان سے اپنے پروں کی وجہ سے فضاؤں میں اڑتے پھرتے ہیں بادلوں سے اوپر جاتے ہیں پھر واپس آکردرخت پر بیٹھ جاتے ہیں اب تم خود کو دیکھو کتنی بلندی تک جاتے ہو میں یہ چاہتا ہوں کہ تم اڑنے میں میری مدد کرو اور مجھے بھی فضا میں بلند کرو تاکہ بلندی سے جنگل کی خوبصورتی کا نظارہ کروں۔ گدھ نے کچھوے کی خواہش سن کر کہا دیکھو بھائی کچھوے اللہ نے تم کو اڑنے کے لیے نہیں بنایا اسی لیے پر نہیں دیے اب تم اڑنے کی کوشش کروگے اس سے تمہارا نقصان ہو گا بلندی سے گر کر زخمی ہو سکتے ہو ممکن ہے ہلاک ہو جائو۔ کچھوے نے کہا گدھ بھائی تم مجھے بلند تک لے جائو پھر وہاں چھوڑ دینا میں اڑتا رہوں گا۔

گدھ کے سمجھانے کے باوجود کچھوا اپنی ضد پر قائم رہا اور گدھ نے کچھوے کو پنجوں میں پکڑ کر اڑان بھری اور بلند ہوتا گیا کچھوے کو مزا آنے لگا اس نے کہا اب تم فضا میں مجھے چھوڑ دو میں خود اڑوں گا گدھ نے سمجھایا دیکھو اس عمل سے تم کو نقصان ہو گااپنی اس خواہش سے باز آجائو میں تم کو نیچے جا کر چھوڑ دیتا ہوں تم تالاب میں مزے سے تیرو لیکن کچھوا ہٹ دھرمی پر قائم رہا، کہا کہ تم مجھ کو بلندی پر چھوڑ دواب میں اڑ سکتا ہوں، میری فکر نہ کرو جیسا کہہ ہا ہوں ایسا ہی کرو۔

کچھوے کے مسلسل اصرار پر گدھ نے اسے بلندی پر جا کر اپنے پنجوں سے آزاد کر دیا کچھ دیر تو کچھوا تو فضا میں اس انداز میں ڈولتا رہا جیسے وہ اڑ رہا ہے پھر وہ تیزی سے پیٹھ کے بل زمین پر آرہا اس کی چیخ نکل گی وہ زمین پر آ کر گرا اور درد سے کراہ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اُڑنا میرا کام نہیں اگر مجھے اللہ اڑنے کے لیے بناتا تو پر بھی دیتا اور یہ خول جس میں بے مصرف سمجھا رہا تھا اس نے مجھے گرنے کے بعد بچایا اگر یہ نہ ہوتا تو میں ہلاک ہو جاتا اللہ نے جو نعمت عطا کی ہے اس پر خوش رہنا چاہیے اور کسی کو بلندی پر دیکھ کر حسد نہیں کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ہمیشہ اظہار تشکر کرنا چاہیے۔