نماز کبھی نہ چھوڑنا

نزہت ریاض

 یہ میرے پڑوس میں رہنے والےحیات بھائی کے ساتھ ہونے والا سچا واقع ہےجو میں ان ہی زبانی أپ کے ساتھ  شیرکر رہی

ہوں۔

 میرے ابو گورنمنٹ ملازم تھےاور ہم لاینز ایریا  کے سرکاری کوارٹر میں رہا کرتےتھے ۔ان دنوں  بچوں کے کھیلنے  کے لیے بڑے بڑے میدان میسر تھے، کیونکہ  شہر اتنا کنجان آباد نہیں تھا جیسا کہ أج کل ہے ۔ میری  عمر  ۱۳ سال تھی اور میں اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ میدان میں روزانہ  کرکٹ کھیلنے کے لیے جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک دن ہم سب بچے کرکٹ کھیل رہے تھے میں فیلڈنگ پر تھا مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی ۔

کیپٹن نے أواز لگائی میچ ختم کرو اذان ہو رہی ہے، مگر بیٹنگ کرنے والا لڑکا بولا میرے أؤٹ ہوے بغیر کھیل  ختم نہیں ہوگا ۔ چلو یار جلدی کرو کیپٹن نے کہا میں دوبارہ اپنی فیلڈنگ والی جگہ پر جا کر کھڑا ہوگیا ۔اچانک میری نظر ایک عجیب منظر پر پڑی أسمان سے أیک بے انتہاء نورانی چہرے والے بزرگ بالکل  سفید کپڑے پہنے ہوئے  جیسے ہوا میں تیرتے ہوئے میرے قریب أتے جارہے ہیں۔ قد اتنا لمبا کہ مجھے سر اٹھا کر بھی ان کا چہرہ پوری طرح صاف نظر نہیں  آرہا تھا۔  اچانک ان کی سریلی اور مدھر أواز میرے کانوں میں گونجی مغرب کی نماز پڑھنے قریبی مسجد میں چلو ۔میں دہشت زدہ سا اپنی جگہ پر کھڑا رہ گیا تھا بھاگنا چاہتا تھا، مگر پیر من من بھر کے ہو گئے تھے۔ بزرگ نے دوبارہ یہی بات دوہرائی۔ نماز پڑھنے چلو اتنے میں  بیٹنگ والے لڑکے نے بال میری جانب ہٹ کی اور دوسرا فیلڈر مجھے ہلتے نہ دیکھ کر میرے قریب أتی بال کو کیچ کرنے کے لیےمیری طرف دوڑا ۔

 لڑکے کو میری طرف أتے دیکھ کر بزرگ نے دوبارہ أسمان کی طرف اڑنا شروع کر دیا۔ اس لڑکے نے بعد میں بتایا کہ تم کھڑے کھڑے اچانک گر کر بےہوش ہوگئے تھے۔

 ہم سب تمہیں اٹھا کر گھر لے کر گئے تھے ۔جہاں میں تین دن تک بخار میں پڑا رہا ۔جب طبعیت سنھلی تو سب سے پہلے نہا کر نماز پڑھی۔

 اس دن کے بعد میں  کبھی میدان میں کھیلنے  نہیں گیا مگر میں نے دوبارہ  کبھی نماز بھی قضاء نہیں کی۔.