سماویہ وحید
ہر گزرتی رات مجھےاپنی زندگی کی آخری رات لگتی تھی کیونکہ ہر رات مجھے قیامت سے کم نہیں لگتی تھی. میں ایک حكيم ہوتےہوئے
بھی اپنا علاج کرنے سے قاصر تھا. مجھے بے چینی کا مرض لاحق ہوگیا تھا، آخر یہ کیسی بے چینی تھی جو میری راتوں کی نیندیں چھین لے گئی تھی. میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا. مجھے ایک ٹھنڈی چھاؤں کی تلاش تھی، ایسی چھاؤں کی تلاش جو میری زندگی میں سکون پیدا کر سکتی تھی۔ مجھے کبھی اندھیرے یا تنہائی حتى کہ کوئی ایسی چیز سے ڈر نہیں لگتا تھا جو میرے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی. میں نے ہر آزمائش جو میری کامیابیوں میں خلل ڈالنے والی تھی، سب سے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا. میری دنیا میرے لیے جنت سے کم نہ تھی. میرے پاس ہر چیز موجود تھی لیکن میں پھر بھی ادھورا تھا. میرے پاس سکون نہیں تھا، میرے پاس دل ہوتے ہوئے بھی نہیں تھا. میرے ہاتھوں سے مریضوں کو شفا تک ملتی تھی لیکن میں شفرڈ ولیم جس سے علاج کروانے کے لیے دنیا ترستی تھی، جس سے شفاء پانے کے لیے دور دور کے ممالک سے مریض آتے تھے اپنا علاج کرنے سے قاصر تھا.
میں روزانہ ہر قسم کے مریضوں کا علاج کرتا تھا. ہزاروں مریض میرے ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہتے تھے لیکن دو ہفتے قبل میرے پاس ایسا مریض موجود تھا جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا. میں اس کے پاس ہی کھڑا رپورٹس پڑھ رہا تھا ، میں نے نرسز کو کچھ ہدایات دی اور اس مريض کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا کہ:
"اگر کوئی تکلیف محسوس ہو تو ہمیں بتا دیجیے گا"
اس نے فوراً ہی بهرائی ہوئی آواز میں میں کہا:
" تکلیف تو مجھے نہیں ہو رہی لیکن محترم آپ کو دیکھ کر ہو رہی ہے."
میں اس کی بات سن کر ایک دم چونک اُٹھا، مجھے اس بات پر بھی حیرت تھی کہ اس مریض سے اس کے گھر والے بات کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن زندگی کی آخری سانسیں اور شدید تکلیف کے باعث اس کی زبان جیسے پہلے سے ہی ختم ہو چکی تھی، کہ کیسے ایک دم بول اٹھی. میں نے نہایت ہی نرم لہجے میں کہا:
" صاحب میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکا."
وہ پھر مجھ سے مخاطب ہوا:
"بیٹا روشنی کی تلاش کرو، حق کی تلاش کرو ایسی روشنی کی جو تمہاری زندگی و آخرت سنوار دے. خدا تعالی کو تلاش کرو. مجھے یقین ہے کہ ایک دن دنیا تمہارے قدموں میں ہوگی. تم مجھے نیک معلوم ہوتے ہو."
یہ کہنا تھا کہ دو سے تین منٹ کے وقفے کے بعد وہ اپنی جیتی جاگتی دنیا كو خیر آباد کہہ گیا۔ میں نے کبھی زندگی میں اتنا نہیں سوچا تھا لیکن ان لفظوں کو میں بھلا نہیں پارہا تھا کہ آخر کون سی روشنی؟ کونسی حق کی تلاش؟ اور کون خدا؟ مجھے میرا دل سوچنے پر مجبور کر رہا تھا. جس کی وجہ سے میرا دل بے چین ہو چکا تھا.
آج رات بھی نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی. کچھ نہ پاتے ہوئے میں نے موبائل اٹھا لیا اور ایسے ہی فیس بک استعمال کرتے کرتے میرے سامنے ایک ویڈیو کھل گئی جس کا عنوان تھا کہ "یہ ہے اصل روشنی" میں نے وہ ویڈیو بڑے دل سے دیکھی اور اس کے بعد کافی دن تک اسی روشنی پر میں نے مزید ریسرچ کی اور یوں ایک دن میں قرآن مجید اپنے گھر لے کر آ گیا. میں نے جلدی جلدی نہا کر قرآن کھولا کیونکہ میں نے ریسرچ کے دوران یہ پڑھا تھا کہ
" اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں."
میں نے قرآن کھولا تو سب سے پہلے ہی سورۃ الانفطار کھلی میں نے پڑھنا شروع کیا اور جیسے ہی میں نے آیت ٦ پڑھی، سکتے میں آگیا. میں نے بار بار آیت دہرائی کہ
" اے انسان! تجھے کس نے اللہ کے معاملے میں دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے؟"
میرا دل تھا کہ پھٹتا ہی جا رہا تھا میں نے صفحے پلٹنے شروع کیے اور پھر میں سورہ سجدہ آیت ٤ سے پڑھنے لگا:
"اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے چھ روز میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا، تمہارے لیے اس کے سوا نہ کوئی کارساز ہے نہ سفارشی، پھر کیا تم نہیں سمجھتے. وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھر اس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہوگی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا. وہی چھپی اور کھلی بات کا جاننے والا زبردست مہربان ہے۔"
میرے آنسو تھے کہ رواں ہو گے جیسے وہ اب کبھی تهم نہیں سکتے. میں نے کافی عرصے تک قرآن کو سمجھ کر پڑھا اور پھر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گی روشنی کی طرف رجوع کرنے میں کامیاب ہوگیااور اب مجھے لگنے لگا تھا کہ میری زندگی پلٹ چکی ہے، میری زندگی سکون سے بھرنے لگی ہے.
اسلام قبول کرنے کے بعد میرا دل اللہ کی محبت پانے کے لیے دیوانہ ہوگیا تھا۔ مجھے خداتعالی سے ایسا عشق ہوگیا تھا کہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ذکر الہی سے میری زبان تر رہتی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے کافی عرصے بعد ایک دن میں بیٹھا قرآن پڑھ رہا تھا کہ مجھے اپنے جہالت کے دن یاد آئے کہ میں تو دنیا کو ہی جنت کہہ بیٹھا تھا. میں نے کبھی لفظ اللہ پر غور ہی نہیں کیا تھا. میں نے کبھی حقیقی سکون تلاش ہی نہیں کیا تھی. پھر میں نے اس شخص کو دعائیں دیں جس نے میری آنکھیں کھول دى. جس نے مجھے بتایا کہ اس روشنی کی تلاش کرو جو ہمیشہ رہنے والی ہے. اور پھر میری نظروں سے بے چینی کے دن گزرنے لگے، جب اس بزرگ کے لفظ میرے دل کو چیر رہے تھے، جب میرا جسم سکون کی تلاش میں تھا. اور پھر اللہ رب العزت نے اپنا کرم کیا، میری زندگی میں قرآن کو نور سے بھر دیا، مجھے زندگی کی حقیقت سے آگاہ کیا.
میں نے قرآن مجید کو سینے سے لگاتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری۔ جیسے سارا جہاں میرے سینے میں آگیا ہو۔ پھر گزرے ہوئے لمحات اور جہالت کی زندگی کا سوچ کر مسکراتے ہوئے ساتھ پڑی میز پر رکھ دیا. میں نے سوچا کہ میں جس بے چینی کا علاج کرنا چاہتا تھا اور مجھے جس ٹھنڈی چھاؤں کی تلاش تھی وہ تو اللہ رب العزت کی طرف سے ملنی تھی اور وہ ہدایاتِ قرآن تھی.
اور پھر اللہ کی طرف سے ہدایت ملنے پر میں سجدہ شکر کے لیے دو رکعت نفل ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔