ماہم احسن
ہائے رمشہ کس قدر گرمی ہے نا " مومنہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
ہاں یار گرمی کے مارے تومیرے سر میں درد ہونے لگا ہے۔ رمشہ نےبھی دہائی دی۔
اے سی کی ٹھنڈی ٹھنڈی کولنگ سے ان کا دماغ ٹھکانےآیا تووہ اپنی شاپنگ دیکھنے لگیں۔جو انہوں نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے کی تھی۔
" یہ والا بلاؤز میں نےغلط لے لیا ۔دیکھوزرا ،"مومنہ نے بلاؤزکو تنقیدی نگاہ سے دیکھا۔
" مجھے بھی اب یہ کرتی اتنی اچھی نہیں لگ رہی جتنی اسٹور پر اچھی لگ رہی تھی۔ رمشہ نےبھی منہ بنا کر کہا۔
ابھی وہ دونوں باتیں کر ہی رہیں تھیں کہ اتنی دیرمیں گاڑی ایک سگنل پر رکی۔ اور ایک فقیرنی نے گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹایا۔ مومنہ اور رمشہ نے ایک ساتھ اس کی طرف دیکھا۔ وہ پھٹے ہوئے کپڑے پہنی ہوئی تھی۔اس کی للچائی ہوئی نظریں گاڑی میں رکھے ہوئے شاپنگ بیگز پر تھیں۔رمشہ نے جلدی سے کچھ پیسے نکال کر اس کے ہاتھ میں پکڑوادیے۔ فقیرنی نے جلدی سے پیسے جھپٹ لئے۔
" پیسے دے دئیے تو اب شیشہ بند کرو ۔ساری کولنگ باہر جا رہی ہے۔" مومنہ اکتائے ہوئےانداز میں بیٹھی ہوئی تھی۔
رمشہ شیشہ بند کرنے لگی تو فقیرنی اور پیسےمانگنے لگی۔ رمشہ نے گھبرا کر جلدی سے شیشہ بند کردیا۔شیشہ بند ہونے کے باوجود وہ وہیں کھڑی رہی۔ اتنے میں سگنل کھل گیا۔اور ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھادی۔ دراصل دونوں عید کی شاپنگ کےلئے دکانوں کے چکر لگا رہیں تھیں۔رمشہ اور مومنہ دونوں بہنیں تھیں۔ رمشہ فرسٹ ائیر جبکہ مومنہ سیکنڈ ائیر کی طالبہ تھی۔رمشہ کی طبیعت میں رحمدلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔کہتے ہیں کہ ہر چیز کا اعتدال میں ہونا ضروری ہے۔اسی طرح اگر رحمدلی ہے تو وہ بھی اعتدال میں ہونی چاہیے۔رمشہ جہاں کسی فقیر کو دیکھتی جلدی سے پیسے نکال کر دے دیتی۔ رمشہ کی امی اور مومنہ کو رمشہ کی یہ عادت بہت ناگوار گزرتی۔ امی اس کو سمجھاتیں کہ اگر کسی فقیر کی مدد کرنی ہے تو اس کو یوں پیسے نہ دو بلکہ اس کی انھی پیسوں سے کچھ اس طرح مدد کرو کہ اس کو دوبارہ پیسے نہ مانگنے پڑیں۔ زیادہ تر مومنہ اور رمشہ ہی بازار جانے کے کام کرتی تھیں۔چاہے گھر کا سوداسلف لانا ہو یا شاپنگ کرنی ہو دونوں ہی جاتی تھیں۔مومنہ رمشہ کی اس عادت سے بہت چڑتی تھی۔اس لئے گھر آتے ہی اس نے امی کو ساری بات بتادی۔
" رمشہ بیٹا تم جو اتنے پیسے ان فقیروں کو دے دیتی ہو اس سےان کے مانگنےکی عادت اور پختہ ہوجاتی ہے۔" امی نے رسان سے سمجھایا۔
" امی میں نے تو نیک کام کیا ہے۔" رمشہ اپنی بات پراڑی رہی۔
" رمشہ ! تم نے دیکھا نہیں تھا، آج جس فقیرنی کو تم نے پیسے دئیےتھےوہ پیسے لینے کے بعد بھی وہیں کھڑی رہی ۔ تم جیسے لوگ ہی فقیروں کو مانگنے کا عادی بناتے ہو۔ " مومنہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
رمشہ چپ رہی ۔اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جب اس نے فقیرنی کو پیسے دیئے تب بھی وہ وہاں کیوں کھڑی رہی؟
" کہیں میں ہی غلط تو نہیں ہوں؟ " اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔
رمشہ کو سوچ میں مگن دیکھ کر امی نے محسوس کیا کہ لوہا گرم ہے اور چوٹ لگانے کی دیر ہے۔
" راہ چلتے فقیروں کو تھوڑے تھوڑے پیسے دینے کے بجائے اس طرح ان کی مدد کرنی چاہیے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار سکیں۔ اور ان کو کسی سے مانگنا نہ پڑے۔"
امی ابھی رمشہ کو اور سمجھانا چاہتی تھیں کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی اور بات ادھوری رہ گئی۔
اگلی صبح رمشہ کے کالج کی چھٹی تھی۔وہ صبح سویرے ہی اٹھ گئی۔ وہ کچن میں امی کی مدد کروارہی تھی۔ کہ اچانک داخلی دروازے کی گھنٹی بجی۔
جاؤ رمشہ جلدی سے گیٹ کھول دو۔ ماسی آئی ہوگی۔ " امی نے مصروف سے انداز میں رمشہ سے کہا۔ رمشہ گیٹ کھولنے چلی گئی۔ اس نے گیٹ کھولا تو نہ صرف ماسی بلکہ اس کی بیٹی بھی آئی تھی۔
باجی ! یہ میری بیٹی ہے ۔ اس کو کہیں کام پر لگوادو۔آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ ماسی لجاجت سے بولی۔
ماسی ! تم اس کو اسکول کیوں نہیں بٹھا دیتی؟ " امی نے ماسی سے پوچھا۔
باجی اسکولوں کی فیس تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ میں فیس کے پیسے کہاں سے لاؤں؟ " ماسی حسرت سے بولی۔
تم اگر راضی ہو تو میں اس کی فیس دے دونگی۔ بس باقاعدگی سے اسکول بھیجنا۔
باجی! آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اللّٰہ آپ کا بھلا کرے گا۔" ماسی خوشی سے بولی اور کام میں مصروف ہو گئی۔ رمشہ ایک طرف بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی۔ امی نے اس کو غور سے دیکھا اور رمشہ نے سر ہلادیا۔ جیسے امی کا پیغام سمجھ گئی ہو۔
ختم شد