آسیہ محمد عثمان
دی مرنے کے شوق واہ واہ ۔۔ کیا شعر لکھا ہے میں نے لیکن ان دو لاٸنوں پر اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے سونیا زندگی غموں سے
بھری پڑی ہے اداسی ہی میرا مقدر ہے بس۔ کھیل گڑیا گڈے کا ہوتا تو کھیل لیتے ہم مقدر کے کھیل سے کیسے جیتے کوئی۔
واہ کیا خوب کہا۔۔
سونیا نے پھولوں بھری کیاری کو دیکھا۔
ہم سے اچھے تو تم ہو اے پھول
ہم خوش رہیں یہ ہے ہماری بھول
۔۔اس شعر پر واہ کی نہیں امّی کی آواز آئی۔
او دکھی روح بیکار شاعرہ!! اگر آپ کا سوگ ختم ہوگیا ہو تو برتن دھو لو۔۔
برا سا منہ بنا کر سونیا نے ایک شعر اور عرض کیا۔
جب تک زندہ ہیں یہ رشتے نبھانے پڑیں گے
اگلی آواز امّاں کی تھی!!
اگر برتن نہ دھوۓ تو منہ پہ تمانچے پڑیں گے۔
سونیا کا دکھ اتنا بڑا تو نہیں تھا مگر کیا کرے ایک بار ہو تو صبر آ جاتا ہےلیکن تیسری بار میٹرک میں فیل ہونا یہ بہت ہی دکھ اور زلت کی بات تھی۔ اوپر سے محلے کی عورتيں اسے بےعزت کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتی تھیں۔
شام کو چائے کا کپ اٹھاۓ سونیا نے چھت کا رخ کیا اگست کی رم جھم نے موسم کو بہت خوشگوار بنا یا تھا۔ سونیا نے چائے کا پہلا گھونٹ بھرا۔۔
جس طرح ہم چائے پیتے ہیں اے ہوا
ایک دن زہر پی لیں گے
اس طرح خود کو ختم کر لیں گے
ساتھ والی دیوار پر کھڑی ریحانہ بھابھی جو میٹرک پاس تھیں اپنا فرض سمجھ کر انہوں نے بھی پوچھ ہی لیا۔
ارے کیا سن رہی ہوں میں تو پھر فیل ہوگٸ۔
سونیا نے غصے سے کپ گیلری کی دیوار پر رکھا۔
ہاں جی ہوگٸ ہوں فیل اب کیا اخبار میں چھپوا دوں جسے دیکھو یہی سوال کرنے چلا آتا ہے۔
فیل ہی ہوئی ہوں ناں! نقل کرتے ہوئے پکڑی تو نہیں گٸ۔
یہ ریحانہ بھابھی کا زخم تھا جس پر سونیا نے نمک چھڑک دیا تھا۔
ہاں تو کی تھی نقل تیری طرح تین تین بار فیل ہونے سے تو اچھا ہے میں نقل سے پاس تو ہوگٸ تھی اور ویسے بھی جس دور میں میں نے میٹرک کیا تھا اس دور میں اتنی سختی نہیں تھی اور نقل وقل کو برا نہیں سمجھتے تھے۔
ریحانہ نے اپنی صفائی پیش کردی۔۔
اچھا تو پھر آپ کو میڈل یا ایوارڈ تو ملا ہی ہوگا۔
سونیا اور جواب نہ دے۔۔۔
سونیا کا دل بھرچکا تھا اب وہ روز روز کے طنز سن سن کر تھک چکی تھی۔ آج اس نے پکا ارادہ کر لیا کے وہ اس ناکام زندگی کو ختم کرے گی۔ سونیا سوستی سے اٹھی اور دوپٹہ پنکھے میں باندھ کر خودکشی کرنے کی کوشش کی مگر جیسے ہی سونیا نے دوپٹہ پنکھے کی طرف اچھالا سونیا کی اماں دروازے میں کھڑی کہے رہی تھی۔۔۔ واہ!!! میری بچی دیرآئے درست آئے یہ اچھا کر رہی ہے۔ رک میں کرسی لاتی ہوں تیرا ہاتھ نہیں پہنچے گا۔۔۔
سونیا کا دل تو جیسے مرنے سے پہلے ہی مر گیا ۔ایسی بھی ماں ہوتی ہیں کوئی سونیا دوپٹہ ہاتھ میں لیے کمرے سے باہر آگئی۔۔
یہ لے کرسی کیا ہوا سونیا ہوگیا اندر کا پنکھا صاف دیکھ پڑھائی لکھائی کے ساتھ گھر کے کام کاج بھی ضروری ہیں۔
امّاں کی یہ بات سن کر سونیا کو بڑا غصہ آیا۔۔ امّاں میں پنکھا صاف نہیں کر رہی تھی بلکہ خودکشی کر رہی تھی۔ امّاں نے ہوا میں ہاتھ ہلایا اور چل پگلی کہے کر چلی گئی۔ پچھے رہے گٸ سونیا اور سونیا کا غم۔۔آپاآج کیا پکاٶگی کھانے میں سونیا کی چھوٹی بہن نے بڑے پیار سے پوچھا۔۔زہرپکاٶں گی مگر اکیلے ہی کھاٶں گی۔تم سب زندہ رہنا میں تو مر جاٶں گی۔ ارے آپا کیا شعر سنایا ہے آپ تو واقعی شاعرہ بن گٸیں۔۔
جھوٹی ہی سہی لیکن پہلی بار کسی نے سونیا کے بے معنی اشعار کی تعریف کی تھی۔سونیا تو خوشی سے جھوم گٸ واقعی میری بہن اچھا چل بتا کیا پکاٶں پیاز والا انڈا کھاۓ گی یا آلو کے کباب؟؟
سونیا ایک سیدھی سادھی سی لڑکی تھی جسے دنیا کی اس دوڑ میں حصہ لینا تھا جس میں آج تک کوٸ نہیں جیت سکا۔ مگر کیا کریں سونیا ہر بار میٹرک میں فیل ہونے کو ذندگی کا فیل ہونا سمجھتی تھی۔ گھر کی بڑی بہن ہونے کے ناطے ذمہ داریاں بھی بہت تھیں پر اللہ نے انسان میں کوٸ نا کوٸ صلاحيت ضرور رکھی ہے کوٸ انسان بیکار پیدا نہیں کیا گیا۔
آج بھی مایوس ہوکر سونیا نے چھت سے چھلانگ لگانا چاہا شکر ہے امّاں نے دیکھ لیا۔
سونی دیکھیو میری بچی چاند نظر آیا کیا محرم کی دس کو ہے آپا کی چھوٹی لڑکی کی برأت ۔...
امّاں تم تو سکون سے مرنے بھی نہیں دیتی میں یہاں مرنے چڑھی ہوں چاند دیکھنے نہیں۔۔
اچھا چل پہلے ہمارے ایک دو جوڑے سی دے پھر کود جاٸیو چھت سے۔
سونیا قسمت کی ماری سلاٸ مشین لے کر بیٹھ گٸ چند گھنٹوں میں سونیا نے خوبصورت جوڑا سی کر تیار کردیا اتنی نفاست سے سلاٸ کی تھی کے دیکھنے والے پوچھتے کہاں سے لیا کس برانڈ کا ہے؟
شادی میں سب کی نظریں سونیا پر تھیں نا صرف بہترین سلا جوڑا پہنا ہوا تھا بلکہ بڑی خوبصورتی سے دوپٹہ بھی سیٹ کیا تھا۔
کھانے کے بعد ایک خاتون سونیا کی طرف متوجہ ہوٸیں۔
بیٹا کیا نام ہے آپ کا؟
جی میرا نام سونیا ہے۔
اچھا کیا کرتی ہو؟
پڑھتی ہوں۔
کس کلاس میں ہو؟
جی میں میٹرک میں ہوں۔
باٸیو پڑھ رہی ہو یا پھر؟
جی باٸیولوجی ہی۔
پر تمہیں تو آرٹس لینا چاہیے تھا بایو تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔
کیا؟؟؟ پر آنٹی آپ کو کیسے پتہ؟
بس پتہ ہے یہ بتاٶ کپڑے کس نے سلائی کیے؟۔
جی میں نے ۔۔
سونیا اس بار فخر سے بتا رہی تھی۔۔
ہممممم تو پھر تم آرٹس پڑھو اور میری مانو تو مایوس ہونا چھوڑ دو تم نہیں جانتی اللہ نے تمھیں بہت سے ہنر دیۓ ہیں وہ کسی کو بغیر وجہ کے نہیں بناتا۔
پر آنٹی آپ کو کیسے پتہ یہ سب۔
کافی دیر سے میں تمھیں ہم عمر لڑکیوں سے دور بیٹھے دیکھ رہی تھی اور خواتین آتے جاتے تمھارے امتحان پر تبصرہ کررہی ہیں۔ بیٹا جس طرح یہ ناکامی پر باتیں کر رہی ہیں دیکھنا ایک دن کامیابی پر بھی اش اش کریں گی۔۔
اچھا میں چلتی ہوں اگر تم چاہوں تو ہمارے بوتیک کے لیے کام کرسکتی ہو.
کچھ دن بعد ہی سونیا نے بوتیک جانے کا فیصلہ کر لیا ۔ جب وہ بوتیک میں گٸ تو وہاں کا ماحول دیکھ کر بہت خوش ہوئی دو لڑکیاں عبایا پہنےکپڑوں کو ترتیب سے لگا رہی تھی سونیا نے بوتیک کی مالک شاٸستہ آنٹی کو سلام کیا اور رسمی گفتگو کے بعد سونیا کو اس کی صحیح جگہ مل ہی گئی۔
چند سالوں بعد ہی سونیا ایک ماہر فیشن ڈیزاٸنر بن گئی
اب اچھی تعلیم اور ہنر کے ساتھ ساتھ وہ باحجاب لڑکی بھی تھی۔ہر کام ہر کسی کے لیے نہیں لیکن ہر انسان کسی نا کسی کام کے لیے ہے اور یہ سونیا نے ثابت کر دیکھایا۔ لیکن ہر خواب تو پورا نہیں ہوتا اس لیۓ وہ آج بھی ایک بیکار شاعرہ تھی۔ ارض کیا ہے۔۔
میں خوبصورت سلیقہ مند اور حسین
میرے ہاتھ میں سوئی دھاگا اور سلائی مشین
واو واہ ۔۔۔