منیبہ مختار اعوان
تم کس شریف والدین کی اولاد ہو ، تم رات کے اس پہر ان بیہودہ لڑکوں کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔کوئی لحاظ کوئی شرم ہے تم میں ؟ " باپ نے اپنے بیٹے وقار پر رات
دیر سے گھر آنے پر شدید غصہ کیا۔
" ابا میں۔۔۔۔۔۔ "وقار کی بات ابھی جاری ہی تھی کہ جبران نے وقار کے منہ پر زوردار تھپڑ دے مارا ۔
" آئندہ تم مجھے ان آوارہ لڑکوں کے درمیان نظر آئے تو وہ دن تمہارا اس گھر میں آخری دن ہو گا سمجھے۔؟
ابراہیم کے متعلق محلے میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں ،محلے کے دو چار افراد نے ابراہیم کو جوا کھیلنے والے کچھ آوارہ لڑکوں کے درمیان دیکھا جس کے بعد یہ خبر جنگل کی طرح پورے محلے میں پھیل گئی اور محلے والوں سے یہ بات ابراہیم کے والدین تک پہنچی۔
" ارے رفیق میاں جب اولاد نالائق نکل آئے تو والدین کی کمر ایسے ہی جھکا کرتی ہے جیسے اس وقت جبران کی جھک گئی ہے ،اللہ رحم فرمائے جبران پر اللہ نے ایک ہی بیٹا دیا اور وہ بھی نالائق نکلا۔"اکرم نے جب ابراہیم کو اپنے قریب سے گزرتے دیکھا تو اسے شرم دلانے کے لیے فوراً اس موضوع کو چھیڑ لیا ۔
" ہاں بھئی ! دیکھا تھا، کیسے کل جبران صاحب کے گھر سے آوازیں آرہی تھیں ، بیچارہ بوڑھا باپ۔ "رفیق بھی اس موضوع کو وسعت دینے لگا۔ابراہیم نے جب یہ آوازیں سنی تو ان سنی کر کے اپنے قدموں کو تیز کر گیا ۔
ابراہیم اپنی قریبی مسجد میں نماز ادا کیا کرتا تھا مگر اس میں کئی اخلاقی برائیاں تھیں جو محلے والوں سے والدین تک پہنچی تھیں ۔ اس کی غلط صحبت کی تصویریں بنا کر والدین تک پہنچانا محلے والوں کی عادت بن چکی تھی ۔ ابراہیم انتہائی نفیس والدین اور اچھے گھرانے کا بیٹا تھا۔ محلے کو بھی موقع مل چکا ہے تھا ابراہیم اور اس کے والدین کی پارسائی کو داغ دار کرنے اور انہیں نیچا دیکھانے کا وہ اکثر باتیں حسد کی بنا پر بھی کیا کرتے تھے۔
" ارے ابراہیم رکو ۔۔۔۔۔۔ " نوید نے ابراہیم کو مسجد سے نکلتا دیکھ کررکنے کا اشارہ کیا ۔
" اسلام علیکم انکل ۔۔۔۔" ابراہیم نے عاجزی سے سلام پیش کیا ۔
" وعلیکم السلام ۔۔۔۔ "نوید نے سلام کا جواب دینےکے بعد ابراہیم کو سمجھانا شروع کیا ۔
" دیکھو بیٹا والدین کی دل آزاریاں کر کےاور خفیہ گناہ خرید کر نمازیں کبھی قبول نہیں ہوتیں ، بہتر ہے کہ تم ان نمازوں کے ساتھ ساتھ غلط صحبت سےدور رہو ،اچھے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کرو اور والدین کی دل آزاری سے بچو۔"
" آپ کا بہت شکریہ انکل ۔۔۔ میرے والدین جانتے ہیں کہ میں کہاں آتا جاتا ہوں اور انہیں میرے اس غلط صحبت میں بیٹھنےسے کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ "ابراہیم نوید سے مصافحہ کر کے چل دیا کیونکہ وہ اپنے والد کے دوست سے بحث نہیں چاہتا تھا اور نا ہی انہیں صفائی دینا چاہتا تھا۔" انتہائی بدتمیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لا حول ولا قوۃ "نوید نے منہ میں بربراتے ہوئے اپنی راہ لی۔
ایک دفعہ رات دس بجے کے قریب سڑک کے کنارے کچھ آوارہ لڑکے بیٹھے تھے ،ابراہیم بھی حسب عادت ان کے درمیان موجود تھا کہ پولیس نے چھاپہ مار کر ابراہیم سمیت وہاں پر موجود لڑکوں کو زیر حراست لے لیا ۔ ان تمام لڑکوں پر چوری ،ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم ثابت ہو چکے تھے ،پولیس کو ایک عرصہ سے جن مجرموں کی تلاش تھی وہ مل چکے تھے ۔عدالت کی مدعیت میں ان کو دس سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی اور گھر والوں کو اطلاع کر دی گئی تھی ۔
ابراہیم اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ، بیٹے کی سزا نے اس کے والدین کا بڑھاپا اوربھی قریب کر دیا تھا ۔مگر وقت تھا کہ کٹنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا ۔ بیٹے کہ سزا کا دکھ الگ اور محلے والوں کی اوٹ پٹانگ باتیں الگ۔ جبران اور سمعیہ چاروں طرف سے دکھ کے قالب میں ڈھل چکے تھے ۔ محلے والوں کی باتوں نے انہیں بستر سے لگا دیا تھا ابراہیم کے علاوہ ان کا کوئی اور سہارا بھی نہیں تھا ۔ دس سال یونہی رات جاگتے اور دن پریشانی میں گزر گئے ۔
دس سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" آج دس سال قید کاٹنے کے بعد آپ کو جیل سے آزادی ملی ہے۔آپ اس وقت کیا محسوس کر رہے ہیں ،اس دس سال کے عرصہ میں آپ کی سوچ میں کیا تبدیلی آئی ہے ،اور آپ اپنے جیسے لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ " صحافی نے قطار میں کھڑے ملزمان میں سے ایک فرد سے پوچھا وہ قید ختم ہونے کے بعد جیل کے باہر کھڑے تھے۔ مگر وہ خاموش رہا ،صحافی نے باری باری سب سے پوچھا سب خاموش رہے پھر اس نے مائیک کا رخ ابراہیم کی جانب موڑ لیا ،" جی آپ کیا کہنا چاہتے ہیں سنا ہے آپ اس گینگ کے لیڈر تھے ، بلکہ تھے کیا ۔۔ آپ اب بھی اس گینگ کے لیڈر ہیں۔
یہ سوال سننے کے بعد ابراہیم کچھ دیر خاموش رہا اور پھر اس کی آنکھوں میں نمی اور چہرے پہ پریشانی کے اثرات نمایاں ہونے لگے ۔۔۔۔
" اوہ پلیززز یہ ڈرامہ بازی بند کریں ۔۔۔۔ آپ چوری ،ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم میں ملوث رہے ہیں ،زرا سی قید کیا کاٹی آپ کی آنکھیں نم ہونے لگیں ،ان غریب لوگوں کا کیا قصور تھا، جن کو آپ نے جانی مالی نقصان پہنچایا ،ان کی تو آنسوؤں کے ساتھ ساتھ چینخیں بھی نکلی ہوں گی ۔ آپ جیسے چوری کے مال سے حرام کا لقمہ کھانے والوں نے کبھی حلال روزی کمانے والے محنت کش سے ایک کلو آٹے کا بھاؤ پوچھ کر دیکھا ہے؟ ، کیا گارنٹی ہے آپ کے پاس کہ آپ یہاں سے نکل کر انسان بن کر رہیں گے یا دوبارہ جانوروں کی سی حرکتیں نہیں کریں گے؟" صحافی نے لفظوں کے تیر چلائے۔
" ابراہیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔" عثمان نے زبان سے لفظ نکالا۔ صحافی نے مائیک فورا اس کےسامنے کیا " جی ۔۔۔۔۔۔ کیا ابراہیم ؟۔
" ابراہیم ہمارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ضرور تھا مگر ہماری اصلاح کرنے کے لیے نا کے ہماری برائیوں میں شریک ہونے کے لیے ۔وہ ہمارے درمیان بیٹھ کر ، ہمارے اندر موجود معاشرتی برائیوں کو قرآنی احکامات سے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتا تھا ، جو برائیاں ہم میں موجود تھیں وہ ابراہیم میں بالکل بھی موجود نہیں تھیں مگر اس نے ہماری برابری کی سزا کاٹی ہے ، اچھے ہونے کی سزا، تبلیغ کرنے کی سزا ، درست ہوتے ہوئے برا بننے کی سزا ۔ ابراہیم نے ہماری اصلاح کرنے کے لیے جو سزا کاٹی ہے اس نے ہمیں اپنا قرض دار کر دیا ہے، جو قرض ہم چاہ کر بھی نہیں چکا سکتے۔ ہم سب دوست اب اپنی دوستی خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے رکھیں گے اور ابراہیم کی طرز کی زندگی گزاریں گے ۔۔۔۔۔ اور یہ جو ہم میں تبدیلی رونما ہوئی ہے اس کے پیچھے یہ سخت جیل نہیں بلکہ ابراہیم ہے۔" عثمان نے کہہ سنایا۔
عثمان کے تلخ لہجے میں چھپے سچے جذبات صحافی کو موم کرگئے ۔
گیارہ لوگ جیل کے باہر ایک قطار میں کھڑے تھے جن کے سامنے میڈیا والوں کا رش تھا ،تمام لوگ جو ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے آج ان کی نگاہوں میں پاک ہو گئے تھے ۔ ابراہیم جو چوری ڈاکہ زنی اور جوے جیسے جرائم کے گینگ کا مرکزی ملزم اورسربراہ مانا جاتا تھا آج اسی گینگ کا خیر خواہ بن کر سامنے آیا تھا ،ہر نیوز چینل پر اہم خبریں گردش کرنے لگی تھیں! "۔
ظاہر کی آنکھ سے نا تماشہ کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دل وا کرے کوئی
(علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
چوری ،ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم کے گینگ کا مرکزی ملزم اور سربراہ ابراہیم کا چہرہ بے نقاب ہو گیا ۔ابراہیم گینگ میں بگاڑنہیں بلکہ اصلاح کر رہا تھا۔"
نیوز چینلز پر یہی خبریں گردش کررہی تھیں ۔ باپ کا سر فخر سے بلند ہو گیا ،محلے والے جو باتیں کر رہے تھے آج مبارکباد پیش کرنے لگے تھے ۔ جیل انتظامیہ اور ہیڈ سےجب صحافیوں نے اس گینگ سے متعلق سوال و جواب کیے تو انہوں نے بھی گواہی دی کہ ابراہیم جیل میں بھی سب مجرموں کی اصلاح کیا کرتا تھا اور انہیں قرآن سیکھایا کرتا تھا۔