ٹھنڈی چھاؤں

جویریہ شاہ رخ

 "عنایہ تم بار بار ایک موضوع پر کیوں بحث کرتی ہو جب کہہ دیا نہیں تو نہیں"... "لیکن زوہان اس  میں حرج کیا ہے ، اگر میں بھی آپ کے ساتھ گھر کو

چلانے میں حصہ دار  بن جاؤں تو اس میں برائی نہیں ہے ""میں نے کب کہا برائی ہے مگر !"  "مگر کیا؟ آپ کو کیا لگتا ہے میں پھر آپ کی نہیں سنوں گی یا باغی  ہو جاؤں گی۔۔۔ کیا ہے جو آپ نہیں مانتے؟" "دیکھو ایسی کوئی بات نہیں ہے." "تو پھر انکار کیوں بچوں کا کیا ہو گا ۔مجھے بتاؤ؟"  "ہم میںڈ  رکھ لیں گے اور عالیان اب بڑا ہے عیشل مومنہ کا خیال رکھ سکتا ہے اور  میں کون سا سارے دن کی ڈیوٹی دے رہی ہوں۔۔۔ میںنج ہو جائے گا میں دے رہی ہوں تسلی۔۔ "

"عنایا ادھر آؤ .....بیٹھو..." زوہان نے عنایہ کو کندھوں سے پکڑ کر کہا انا یہ الجھے ہوئے زوہان کے پاس آکر بیٹھ گئی "عنایا میری بات سنو مجھے تم پسند ہو اور میں چاہتا ہوں تم  بچوں کو اپنی توجہ میں پالو۔۔۔ یوں اس طرح تم توجہ نہیں دے سکتیں باہر والے جتنا بھی خیال کر لیں مگر ماں کے زیر سایہ ہو کر جو خود اعتمادی اور تربیت ملتی ہے وہ کسی طور بھی ماں کی عدم موجودگی میں ممکن نہیں۔۔"

"زوہان میں بھی بچوں کے مستقبل کو اچھا کرنے کے لیے ہی سب چاہتی ہوں۔ آپ سمجھ نہیں پارہے ہیں" "دیکھو مستقبل صرف اس طرح نہیں بنتے کفایت کے ساتھ بھی بہت کچھ ممکن ہے اوربتاؤ کمی کیا ہے جو تم پورا کروگی"  "زان آپ مردوں کے یہی رویے نے آج معاشرے کو یہاں پہنچا دیا ہے،مہنگائی اتنی ہو گئی ہے کہ سوچ سوچ کے اخراجات سنبھالنے پڑتے ہیں اور آپ ؟" " دیکھو مہنگائی اپنی جگہ مگر خواہشات کو کم بھی کیا جا سکتا ہے" " یار آپ ہمیشہ ایسے ہی کہتے ہیں ہاں ہوں میں خواہشات کی غلام اب بتائیں جب میں اپنے بل بوتے پر پورا کرنا چاہتی ہوں تو کیا پرابلم ہے کیا وسائل بڑھاکرزیادہ محنت کرکے یہ سب حاصل کرنا غلط ہے ۔۔؟" "ٹھیک ہے تمہیں بہت شوق ہے نہ تو پھر جو دل چاہے کرو میری اجازت کی ضرورت نہیں "  زوہان کافی خفا ہو گیا تھا۔

عنایا نے زوہان کی خفگی کو دیکھا اور سوچا وقتی ہےاورجاب کے لئے انٹرویو دینےچلی گئی۔  زوہان کے علم  میں سب تھامگر اس نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔

عنایہ ایک با صلاحیت اور تعلیم یافتہ لڑکی تھی تو جاب کے لئےبھی اپوئنٹ کرلی گئی۔ مس عنایہ آپ کو باس نے بلایا ہے۔ عنایہ سارا دن میں کافی تھک گئی تھی اور اب اس کو سر کا بلاوہ ناگوار گزررہا تھا ۔۔ سر نے ایک اور فائل دی اورالائنس کرنے کوکہا تو عنایہ نے طبیعت خراب ہے کہہ کر کےکہا کہ گھر سے کر کے کل دیکھا‎ دے گی

بس کے انتظار نے اس کو آدھا کر دیا تھا۔ گھر پہنچ کر اس نے حمدہ (ماسی)کوچھٹی دی اور کھانے کا کرنے کھڑی ہو گئی ۔ رات کو سارے کاموں سے فارغ ہو کر اس نے سوچا آفس کی فائل دیکھ لے جو کل لے کر جانی تھی مگر مومنہ کمرے سے باہر آکرا اس کو بلا رہی تھی۔

"بیٹا آپ سو جاؤ مما آ رہی ہیں "  "نہیں مما آپ آیئں ناں پلیز۔۔۔۔ " بیٹا مما کام ختم کرکے آپ کے پاس ہی آئیں گی  " "چلیں ناں " پانچ سالہ مومنہ ماں کے دامن کو کھیچنے لگی مگر عنایہ سنی ان سنی کر کے اپنا کام جلدی جلدی ختم کرنے لگی اتنے میں مومنہ نے فائل کھینچی اور پیپر دو ٹکروں میں تقسیم ہو گیا۔

عنایہ نے لمحے کے انتظار کے بغیر ہی مومنہ کے منہ پر تمانچہ دے مارا مومنہ پھڑک کر روئی تو زوہان کمرے سے باہر آیا اور خفگی بھری نظروں سے عنایہ کو  دیکھتے ہوئے مومنہ کو گلے سے لگا کر اندر چلا گیا۔

دن یوں ہی گزرتے گئے عنایہ کے اندر الجھن جھنجھلائٹ اور اکتاہٹ بڑھتی گئی بیزاریت سے وہ گھر کے کام کرتی اور بچوں کو بھی صرف ضرورت کے  ہی وقت دیکھتی۔ عنایہ کے اس رویے نے عالیان پر بہت اثر ڈالا وہ سارا دن ٹی وی  دیکھتا اور جب دل چاہتا کھاتا جب دل کرتا سوتا ۔گویا گھر کی روٹین کوئی نہیں رہی تھی بس گھر کی گاڑی چل رہی تھی ۔

جاب جوئن کرے اسے تقریباً ہ 7 ماہ ہوگئے تھے۔عنایہ بس اسٹاپ پر کھڑی  بس کا انتظار کررہی تھی کہ  کچھ لڑکے نگاہوں سے عنایہ  کو ٹٹول رہے تھے عنایہ نے کچھ پریشان ہو کر اپنی صحیح چادر کو دوبارہ  ایک  بارصحیح کیا ۔ اتنے میں بس آگئی  اور ان میں سے ایک لڑکا عنایہ کے ساتھ بس میں چڑھا  عنایہ  بہت پریشان ہو گئی تھی اور اس کی پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔  بس پوری طرح سے بھری ہوئی نہ تھی بس میں بیٹھتے ہی کنڈکٹر نے آکر عنایہ سے اس کے اسٹاپ کا پوچھا اس نے کہا" دوسرا  اسٹاپ ہے۔۔" تو لڑکا نے جو ساتھ  چڑھا تھا آواز لگائی "اوہو! اوہ تو ہمارا بھی اسٹاپ ہے۔۔"لڑکے کی اس حرکت سے عنایہ بہت سہم گئی تھی اور سوچ میں گم تھی کہ کیا کیا جائے؟ اس نے دل میں کتنی ہی دعائیں دینا شروع کردیں۔  بس اسٹاپ پر رکی تو  اس کے برابر میں ایک خاتون آکر بیٹھ گئیں ۔۔۔ خاتون سمجھدار تھیں اور اپنے سازو سامان سے کوئی ٹیچر معلوم ہورہی تھیں کہنے لگیں" کیا ہوا بیٹا کیوں پریشان ہو؟" عنایہ نے ان کے پوچھتے ہی سارا  احوال کہہ ڈالا۔۔"۔لو اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے بیٹا کمانے نکلو تو ایسے آوارہ لوگوں کے منھ دیکھنے پڑتے ہیں تم نئی نئی آئی ہو اس دور میں ۔۔" عنایہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔ بیٹی  مجھے تو سالوں ہو گئے بھائی کوئی نہیں اور باپ کو پھپھڑوں کا کینسر پھر شادی بھی نہ ہو ئی  تو نکلے ہیں معاش کے لئے ۔۔ مجبوری انسان کو بہت کچھ کرنے پر راضی کرادیتی  ہے ۔۔۔ کونسا اسٹاپ ہے تمھارا؟" " اگلا.. " اس نے مختصر جواب دیا ۔۔۔ "میرا  بھی وہی ہے ۔۔ ہم ساتھ اتر جائیں گے ۔۔۔ " خاتون نے ہمت بندھائی۔۔۔ ۔۔

گھر آکر عنایہ سوچنے لگی  کہ آخر اس کی ایسی کیا مجبوری  تھی جس نے  اسکو اس دورکا مسافر بنایا جواب میں اس کے کانوں میں زوہان کی آوازیں گونج رہی تھیں

ہاں واقعی میں احمق تھی جو ٹھنڈی چھاؤں کو پہچان نہ سکی اور اس تپتی  دھوپ کو اپنے لیے چن لیا ۔

ہاں ہاں میں نے  اپنے لیےخود اس ضرب کے کھیل کو منتخب کیا۔۔۔ کیا تھا جو دو روٹی  میں  خوش ہو کر تیسری کی چاہ نہ کرتی۔ اس کو احساس ہورہا  تھا کہ اس نے  ناصرف خود  کو بلکہ پورے گھر کی ہنسی کو متاثر کیا تھا اور زوہان جو اتنا چاہتا ہے اسے ۔۔۔اس سے کیوں فاصلہ پیدا کیا اس کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ سائبان کے ہوتے ہوئے چھاؤں میں آنے میں  دیر نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔