کلثوم رضا
آج رمضان المبارک کا پہلا روزہ تھا۔ افطاری دستر خوان پر سجانے کے بعد عاصمہ بچوں سے دعا کرنے کو کہتے ہوئے خود بھی باآواز بلند دعا
کرنے لگی۔
"یا اللہ جس طرح تونے ہمیں بخیر وخوبی رمضان تک پہنچایا ہےاسی طرح رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بھی عطا فرما، اس ماہ کو ہمارے لیے مزید رحمتوں اور برکتوں والا بنا دے اور اس جیسے کئی اور بابرکت مہینے ہمیں نواز دے"
عاصمہ سجے سجائے دسترخوان پر نظر دوڑا کر بیٹی سے مخاطب ہوئی ۔
"بیٹا کل اپنے چچا کےلیے بھی وائٹ سوس پاستہ بنا لینا، انہیں پسند ہیں چٹ پٹی غذائیں۔
افطار کے بعد مغرب کی نماز ادا کی اور سورہ واقعہ کی تلاوت کے بعد کچن جاکر سحری کے لئے آٹا گوندھنے لگی۔
اتنے میں شوہر نے آواز دی۔
بیگم چائے بنائی ہے یا نہیں۔
ابھی بناتی ہوں زرا آٹا گوندھ لوں۔
چائے بنا کر میاں بیوی پینے لگے۔
اتنے میں عالیہ آئی جوعاصمہ کے جیٹھ کی چھوٹی بیٹی تھی۔ پچھلے کچھ دنوں سے اپنے ننھیال نانی کے پاس رہنے گئی تھی کیونکہ اس کی نانی ان دنوں بیمار تھیں۔
عاصمہ عالیہ سے اس کی نانی کی طبیعت کا پوچھنے لگی۔ پوچھنے پر عالیہ نے بتایا کہ موجودہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے نانی دوبارہ معائنے کے لیے نہیں جا سکیں۔
ارنم ہسپتال پشاور سے علاج کروا رہی ہیں۔انہیں بریسٹ کینسر ہو گیا ہے۔اس نےیہ بھی بتایا کہ نانی اماں بہت کمزورہو گئی ہیں اس لیے میں انہیں ساتھ ہی لے آئی ہوں تاکہ امی ان کی صحیح دیکھ بھال کرسکیں۔
عاصمہ نے اسے تسلی دی کہ ابھی اس بیماری کی شروعات ہے.تمہاری نانی جلدی ٹھیک ہو جائیں گی اور ساتھ ہی دل میں ارادہ کیا کہ کل ان شاءاللہ ضرور ان سے ملنے جائے گی۔
اتنے میں شوہر اور بیٹے تراویح کے لیےمسجد چلے گئے اوربیٹیاں بھی تراویح پڑھنے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔عاصمہ وضو کر کے عشاء اور تراویح پڑھنے لگی۔
نماز اور ترویح سے فارغ ہوکر کافی دیروہ یہی سوچتی رہی کہ کل عالیہ کی نانی سے ملنے جائے یا نہیں۔
اسے وہ ساری باتیں یاد آرہی تھیں جو عالیہ کی نانی نے عاصمہ اوراس کی جییٹھانی کے الگ الگ ہونے کے وقت کی تھیں۔
حلانکہ ان دونوں کی شادی ایک ساتھ ہوئی تھی۔ ایک ہی دن بیاہ کر اس گھر میں آئیں ۔اچھا برا وقت چوبیس سال ایک ساتھ گزارے۔اب ماشاءاللہ ان کے بچے جوان ہو گئے تھے۔عالیہ کی بڑی بہن کی تو شادی بھی ہو چکی تھی۔چھ بچے عاصمہ کے اور پانچ اسکی جیٹھانی کے۔اب ان کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ علیحدہ علیحدہ گھروں میں رہیں۔
بڑا اور پختہ گھر بھی بڑے بھائی نےلے لیا،گھر کے قیمتی سامان بھی رکھ لیے۔چھوٹے بھائی کو پرانے اورکچے دو کمرے،کچن اور سٹور ملے جو قابلِ رہائش بھی نیہں تھے۔منہدم کر کے دوبارا تعمیر کرنا پڑا۔
عاصمہ کے والد نے (جو ان دنوں بیمار بھی تھے) مکان بنانے کے لیےرقم داماد کودی تاکہ ان کی بیٹی کے لیے عمدہ مکان بنائے ، یوں کام شروع ہوا۔
عاصمہ نےاپنی جہیز میں لائی فرنیچرز اور دوسراقیمتی سامان ،شوہر کی خریدی ہوئی ضروری ایشیاء بھی جیٹھانی کے گھر میں کمرہ خالی کرا کے رکھیں۔ اس نیت سے کہ اس کا نیا گھر بننے کے بعد لے جائے گی۔
آٹھ نو ماہ کے بعد گھر تیار ہوا۔اتنا عرصہ عاصمہ نے اپنے میکے میں گزارا۔ کچھ کام ابھی باقی تھے مگر عاصمہ کے لیے ذیادہ مدت میکے میں رہنا مشکل ہو رہا تھا۔کیونکہ اس کا میکہ گاؤں میں تھا اور بچوں کے سکول آنے جانے میں دشواری ہو رہی تھی ۔اس لیے وہ بچے کھچے کام آہستہ آہستہ کرانے کا ارادہ کیے نئے گھر شفٹ ہونے شہر آگئی۔ جب اپنے جیٹھ کے گھر سے سامان لے جانے لگی تو جیٹھانی اور اس کی امی (جو ان دنوں اپنے بیٹے اوربہو سے لڑ کر بیٹی کے گھر رہ رہی تھی) کو نجانے کیا ہوا جو اتنے نازیبا الفاظ استعمال کرنے لگیں۔ جیٹھ کے کان بھی بھر بھر کے انہیں اتنا غصہ دلا دیا کہ وہ تو جھگڑا ہی کرنےلگے۔ بعض چیزوں کو دینے سے انکار کردیا اوربعض کی توڑ پھوڑ کی۔
بہرحال نئے گھر میں شفٹ ہوتے وقت عاصمہ اپنے شوہر اور بچوں کو لے کر اور جیٹھ جیٹھانی کو تو منا کر نئے گھر لےآئی مگر جیٹھانی کی امی نہیں آئیں۔جب بھی عاصمہ اور اس کے بچوں سے ان کا سامنا ہوتا طنز و حقارت سے کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا ضرور بول دیتیں۔
آج رہ رہ کے ان کے طنزیہ جملے عاصمہ کو یاد آنےلگے۔ پھر اس نے سوچا کہ یہ تو تین چارسال پہلے کی باتیں ہیں۔ جیٹھانی کی ماں شوہر سے اور بیٹے سے علیحدہ گھر کا مطالبہ منوا کر 4 سال پہلے چلی گئی تھیں۔
ان کے جانے کے بعد عاصمہ کے اپنی جیٹھانی سے تعلقات بہتر ہوگئے تھے۔ایک دوسرے کےگھر آنا جانا بھی لگا ہوتارہا تھا
مگر پھر عاصمہ کو خیال آیا کہ جیٹھانی کے دل میں ابھی تک بغض باقی ہے جس کا پتہ عاصمہ کے بھائی پر ایک کیس آنے پر چلا تھا۔
جب اس نے برملا عاصمہ کے سامنے کہہ بھی دیا تھا۔
"اچھا ہوا تمھارے ساتھ، میں اس سے بھی زیادہ تمھاری پریشانی کی خواہاں ہوں۔عاصمہ حیران و پریشان اس کا منہ تکتی رہی کیونکہ عاصمہ نے تو اس کے ساتھ یہ کہہ کر ناراضگی ختم کر دی تھی کہ جو ہوا سو ہوااب آئیندہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے۔
لیکن اس دن جیٹھانی کے رویے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ جیسے پہلے خاندان میں عاصمہ کی بے عزتی کروانے پر تلی رہتی تھی اس کی اور اس کے شوہر،بچوں کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی (مگر اللہ تعالیٰ ہر بار کسی نہ کسی طرح عاصمہ کی ساکھ بحال رکھتے ) اب بھی ایسا ہی چاہتی ہے۔
یہ سب باتیں شیطان اس کے دل میں ڈالتا رہا مگر عاصمہ " افوض امری الی اللہ" کہہ کر اپنا سارا معاملہ اللہ کے سپرد کر چکی تھی۔
اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے نفرت کو اپنا شعار بنانے کا ارادہ کر چکی تھی۔ اس لیے ان ساری دل توڑ باتوں پر دھیان دیے بغیر اللہ سے دعا کرنے لگی۔
اے اللہ مجھے میرے فیصلے پر قائم رکھ تاکہ میں کل جیٹھانی کی ماں سے ملنے جا سکوں۔ ان سے ہمدردی کے چار بول بول سکوں۔ میری جیٹھانی بد دماغ ہے تو کیا ہوا۔ ہم نے کئی سال ایک ساتھ گزارے ہیں۔اس کے بھی کئی احسانات ہیں مجھ پر جو کبھی ضرورت کے وقت ہم ایک دوسرے سے کرتے رہے تھے۔عاصمہ یہ دعا مانگتے ہوئے سونے چلی گئی۔
اے اللہ میں اپنا آپ، آپ کے حوالے کر چکی ہوں مجھے تھامے رکھ ،مجھے بغض و عناد سے بچائے رکھ،،،،میری لاج رکھیو میرے مولا۔۔۔ تاکہ میں اپنے بچوں کے سامنےحقیر نہ بن جاؤں جو مجھے ہمیشہ خوش اخلاق اور اللہ پر توکل کرنے والی مانتے ہیں۔
صبح ہوتے ہی عاصمہ گھر کے ضروری کام نمٹانے کے بعد اپنی جھٹانی کے گھر گئی تو انھوں نے بھی اس کا خیرمقدم کیا۔ شاید اسےاپنی زیادتی کا احساسِ ہو گیا تھا۔ نانی کا دل ویسے بھی بیماری کی وجہ سے نرم پڑ چکا تھا۔جب انھیں پتہ چلا کہ عاصمہ خاص ان سے ملنے اور حال پوچھنے ائی ہے تو بہت ذیادہ خوش ہوئی عاصمہ اور بچوں کو بہت ساری دعائیں بھی دی۔