جویریہ شاہ رخ
شام کودفتر سےفارغ ہو کروہ روزیہاں بیٹھ جایا کرتی تھی۔ ڈی جےکالج کے عقب میں یہ تکون پارک اسےپرسکون ماحول کی بنا پراچھا لگتا ۔ اب تو اس
کی جگہ بھی نہ بدلتی پارک کے دائیں جانب دوسری بینچ جوبالکل پیڑ کےسامنے تھی وہ روزوہیں آتی اورہواؤں کے جھروکوں میں اپنے دل کو ہلکا کرتی ، پھر جتنا دل چاہتا جب تک چاہتا بیٹھتی اورپھر روانہ ہو جاتی کیونکہ اسے کسی منتظر کی فکر نہ تھی کیونکہ اب اس کا منتظر کوئی تھا ہی نہیں۔
آج چھٹی کا دن تھا مگر پھر بھی وہ یہاں آگئی اورکالج کی دیواروں پرنظریں جمائیں اپنےوقت کےکچھ گھنٹےکم کرنےلگی کہ سامنے ایک جوڑا اپنے تین سالہ بچی کو لےکرساتھ میں بہت سےسنیکس لیے بینچ پرآبیٹھا وہاں اکثر لوگ شام کوکچھ لمحات ان پیڑوں کے سائے میں گزارنے آتے تھےوہ جوڑا بھی یہاں آیا ہوا تھا۔ اس نے جوڑے پرایک نظر ڈالی اور پھر سےاپنے خیالوں کی دنیا میں گم ہو گئی۔ سامنے بچی اپنےساتھ بال لائی تھی اور اس سے کھیل رہی تھی کہ اچانک اس کی بال طیبہ کے پیر پرزور سےلگی۔ اس نے جیسے ہی نظروں کو نیچےکیا تو بچے کی ماں سے سوری سوری کہہ کر طیبہ کے پیروں سے بال اٹھانے لگی بال اٹھاتے ہوئےطیبہ کی نظرماں کے ہاتھ میں پہنی انگھوٹی پر پڑی۔
" بالکل سیم "طیبہ کے منہ سےبےساختہ نکلا ۔
ماں نےسوالیہ نظروں سے کہا "جی؟"طیبہ نےنفی میں سر ہلا کر کہا "کچھ نہیں۔" اس انگوٹھی کی ایک جھلک نےطیبہ کو پھر یادوں کے دریچے میں لا پھینکا تھا اوراس یاد کے ساتھ ہی آنسو طیبہ کے چہرے کو بھیگونے لگے وہ سامنے کھڑے پیڑکو ٹک ٹک دیکھ رہی تھی ۔ اسے یاد تھا کہ ابھی پچھلے مہینے ہی بالکل زرد پتوں سے بھرا ہوا تھا مگر آج بہت تازہ اور بھرا ہوا لگ رہا تھا وہ سوچ رہی تھی کہ کاش میں نے بھی خزاں کے بعد بہار کا انتظار کیا ہوتا ۔