”حیا وحجاب تحّفظ بھی رحمت بھی“

اسماء معظم 

”اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومن عورتوں سےکہ دوکہ اپنی نظریں بچا کررکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناٶسنگھار نہ

دکھاٸیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جاۓ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنابناٶ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر، باپ ،شوھروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھاٸ ،بھاٸیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے مملوک ،وہ زیردست مرد جو اور کسی قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔وہ اپنے پاٶں زمین پر مار تی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے ۔اے مومنو تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پاٶ گے۔ سورہ النور آیت نمبر 31“

یہ مندرجہ بالا آیت آیت حجاب کہلاتی ہےاس میں عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہےحضرت عاٸشہ رض فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ ص  سے اس کو سن کر لوگ اپنےگھروں کی طرف پلٹے اور جاکر انہوں نے اپنی بیویوں بیٹیوں اور بہنوں کو اس کی آیات سناٸیں ۔انصار کی عورتوں میں سے کوٸ ایسی نہ تھی جو آیت کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گٸ ہو ۔ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر اور کسی نے چادر اٹھا کر فورا اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا۔دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں حاضر ہوٸیں  سب دوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں۔ اس سلسلےکی ایک اور روایت میں حضرت عاٸشہؓ مزید تفصیل یہ بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کے دوپٹے بنائے۔

حیا اور حجاب لازمی جزو ہیں حیا ایک صفت ہے اور حجاب اس کا ردعمل۔حیا کیا ہے؟ابوداٶد کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ:

ایک خاتون ام خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شھید ہو گیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لۓ نبی ص کے پاس آٸیں ،مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی ،بعض صحابہ نے حیرت  کے ساتھ کہا کہ تمہارے چہرے پر نقاب ہے؟یعنی بیٹے کی شھادت کی خبر  سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتااور تم اس حالت میں بھی  با پردہ آ ئی ہو۔جواب میں کہنے لگیں” میں نے بیٹا تو ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا نہیں کھو ئی“

حیاکے ضمن میں پہلی چیز نگاہ یا نظر ہے۔حضرت بریدہ کی روایت ہے نبی ص نے حضرت علی رض سے فرمایا” اےعلی  ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا ۔پہلی  نظر تو معاف ہےمگر دوسری معاف نہیں۔“۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آدمی کےلۓ یہ بات حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاھ بھر کردیکھے ۔عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں،

کہ حضور نےایک حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا” نگاھ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔جو شخص خداکےڈر سے اس کو چھوڑ دیگا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔“.....ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا جس مسلمان کی نگاھ کسی عورت  کےحسن پرپڑےا ور وہ نگاھ ہٹا لےتو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے. (مسند احمد)

”یغضوا من ابصارھم“کا اصل مفہوم” نظریں بچا کر رکھنا“ ہے،یعنی” جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سےنظرہٹالی جائے“اس کا ہرگزیہ مفہوم نہی  ہے کہ ہم اپنی نگاہ ہر وقت نیچی رکھے رہیں یانیچی کۓ رہیں بلکہ اس  کا اصل مفہوم ”پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھناہے اور نہ نگاہوں کو دیکھنے کے لۓ بلکل آزاد چھوڑ دینا ہے۔“یہ پابندی جس چیز پر عاٸد ہوتی ہے وہ ہے مردوں کاعورتوں کو دیکھنا یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاھ ڈالنا یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔گویا غض بصر کے حکم کامنشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاھ نہ ڈالےستر او حجاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے  ستر تو وہ چیز ہےجسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی ناجاٸز ہے۔رہا حجاب تو وہ ستر سےزاٸد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور مردوں کے درمیان حاٸل کیا گیا ہے۔ عہد نبوی میں حکم حجاب آجانے کے بعدعورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے مرد کا ستر اس کےناف سے گھٹنے تک مقرر فرمائے ہیں اس حصہء جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداکھولنا حرام ہے ۔

غض بصر کے حکم سے مستثنی صورتیں یہ ہیں مثلا کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہےبلکہ ایساکرنا کم ازکم مستحب تو ضرور ہے۔مغیرہ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا ۔رسول اللہ نے پوچھا تم نےلڑکی کو دیکھ لیا ہے۔میں نےعرض کیا نہیں فرمایااسےدیکھ لو۔اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہےکہ تمہارے درمیان موافقت ہوگی۔ اسی طرح بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جاٸز ہیں مثلا تفتیش جراٸم کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا،یا علاج کے لۓ طبیب کا مریضہ کودیکھنا وغیرہ

مردوں کے لیے عورت کاستر ہاتھ اور منہ کے سوا اس کا پورا جسم ہے جسے شوہر کے سوا کسی دوسرے مرد،حتیٰ کہ باپ اور بھاٸ کے سامنے بھی نہ کھلنا چاھۓاس معاملے میں ا سلام اتنی رعایت دیتاہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں مثلا باپ اور بھائی کے سامنے عورت اپنےجسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھرکا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے، جیسےآٹا گوندھتے ہوۓ آستین اوپر چڑھا لینا ،یا گھر کا فرش دھو تے ہوئے پاٸینچے کچھ اوپر کر لینا۔اس لحاظ سے قمیضوں کی آدھی آستینیں یا آستینوں کا غاٸب ہونا یا ٹخنوں سے اوپر پاٸنچوں کا فیشن اس حکم کی نفی کرتا ہے جو ہمارے معاشرے میں دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے اور عورت کو ایسا باریک یا چست لباس بھی نہ پہننا چاہیے جس سے بدن اندر سے جھلکے یا بدن کی ساخت نمایاں ہو، حضرت عاٸشہؓ کی روایت ہے کہ ان کی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ رسول اللہ ص کے سامنے آٸیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فورا منہ پھیر لیا اور فرمایا”اسماء جب عورت بالغ ہو جائے تو جاٸز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے۔“

سرہالاحزاب آیت نمبر 32 میں اللہ تعالی فرماتا ہےکہ:

”اے نبی ص کی بیویو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو،اگرتم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کروکہ دل کی خرابی کا مبتلاکوئی شخص لالچ میں پڑجاۓبلکہ صاف سیدھی بات کرو“

اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ عورتیں بلاوجہ اپنی آواز غیر مردوں کو نہ سناٸیں اور بضرورت غیر مردوں یعنی اجنبییوں سےبولنا ہی پڑ جاۓ سنبھل کر پوری احتیاط کے ساتھ بات کریں ۔ا سی بناء پر عورت کےلیے اذان دینا ممنوع ھے، نیز اگر نماز باجماعت میں کوٸ عورت موجود ھو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان الله کہنے کی اسے اجازت نہیں ہےبلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنی چاھۓتاکہ امام متنبہ ہو جئے۔ ۔۔۔۔۔

مولانا سید ابوالاعلی'مودودی تفہیم القرآن میں فرماتے ہیں ”اب آپ لوگ خود یہ بات سوچیں کہ جو دین عورت کو غیرمرد سے بات کرتے ہوۓ بھی لوچدار انداز گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا ار اسے مردوں کے سامنے بلاضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے ۔تو کیا آپ کے خیال میںں وہ کبھی ا س بات کو پسند کر سکتا ہے کہ عورتاسٹیچ پر آکر گاۓ،ناچے،تھرکے،بھاٶ بتائےاور نازو نخرے دکھائے؟کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائےاور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سناسنا کرلوگوں کے جذبات میں آگ لگائے؟کیا وہ اسےجاٸز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں،یا ہوائی میزبان( ایئر ہوسٹس )بنائی جاٸیں اور انہیں خاص طور پر مسافروں کا دل لبھانے کی تربیت دی جائے؟یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آٸیں اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں؟ یہ کلچر یا ثقافت آخر کس قرآن سے برآمد کی گٸ ہے؟خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کےسامنے ہے،اس میں کہیں اس کلچر کی گنجاٸش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دھی کر دی جاۓ۔ “

اب جوعورت ان احکامات کو پڑھ کر ان کی نافرمانی کرتی ہے بے پردہ پھرتی ہے تو اللہ کے نبی ص نے فرمایا !”عورت مستور(چھپی ہوئی) رہنےکے قابل چیز ہے جب وہ باھر نکلتی ہے تو شیطان اسکو تاکتا ہے۔“

جب عورت کا مطلب ہی مستور یعنی چھپی ہوئی چیز کے ہیں، لیکن آج ہمارے معاشرے کی مسلمان عورت اتنی ہی غیر مستور ہے جتنا اسے مستور رہنے کی تاکید کی گٸ تھی اور اس مملکت خداداد پاکستان میں جس طرح حیاوحجاب کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ہمارا ٹیلیوژن اسکامنہ بولتا ثبوت ہے ان ڈراموں میں شرم وحیا کی دھجیاں بکھیر دی گٸ ہیں، جس کے باعث عورت کی نماٸش ہر گلی ہر سڑک پر عام ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مسلمان عورت کوئی تجارتی شۓ ہے جس کو اشتہارات میں نامناسب طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، بے راہ روی کے یہ رجحانات ہمارے معاشرے میں عورت کے تحفظ اور احترام کی صورتحال کو مزید خراب سے خراب تر کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

۔اسی طرح بعض گھروں کی عورتیں گھروں میں  بغیر دوپٹے کے رہتی ہیں، کیبل والے جب کیبل کے لیے گھر آتے ہیں تو عورتیں انتہائی بے تکلفی سے معاملہ کر رہی ہوتی ہیں، محرم مردووں تک کو گھروں میں کھنکھار کر داخل ہونے کا حکم اسی لۓ دیا گیا ہے تاکہ عورتیں اپنے ستر کے ساتھ ہوں اور مرد عورتوں کو کسی نازیبا حالت میں نہ دیکھ پاٸیں ۔پردے کا مذاق معاشرے میں عام ہے ،محلے پڑوس کے یا اپنے اپارٹمنٹ کےمردوں  کو توبعض عورتیں مرد ہی تصور نہیں کرتیں دھوبی،سبزی والا،نائی ،قصائی دودھ والا ،بجلی والا،چوکیدار اور پانی کے کین فراہم کرنے والےاور جمعدار،ان سے بات کرتے وقت تو بعض خواتین کا یہ عالم ہوتا ہے کہ گویا یہ ان کے لیے نا محرم نہیں بلکہ  یہ سب کوئی اور ہی مخلوق ہیں کیونکہ وہ جس طرح اپنے معاملات ان سے  کر رہی ہوتی ہیں اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے۔ کالجز  یونیورسٹی میں بعض  لڑکے لڑکیاں  منہ بولےبھائی منہ بولی بہنیں بنےرہتے ہیں،حالانکہ اسلام کسی منہ بولے رشتے ناتے کو نہیں مانتا یہ صرف شیطان کے وسوسے اور جال ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےبارے میں روایت آتی ہے کہ، آپ کسی غیر شادی شدہ لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے اس روایت کی روشنی میں آج کی عورتیں اور لڑکیاں اپنی حالت کا تعین کر لیں کہ کل وہ خدا کے ہاں کیا جواب دے سکیں گی۔

(حوالہ:تفہیم القرآن  )