ایک دوسرے کی اصلاح ضروری ہے!

 

مجاہد عالم ندوی، پٹنہ

ادب اورآداب میں امت مرحومہ کی صاف گوئی اور بے باکی تباہ و برباد ہو گئی ، آج ہر شخص زبانی ریاکاری میں محو ہوکردینی حقیقت سے کوسوں

دور ہو چکا ہے ، ( الا ما شاء اللّٰہ )اور جب انہیں ہماری واضح آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں نے کفر کیا وہ ان لوگوں سے کہتے ہیں جو ایمان لائے کہ  ہم دونوں گروہوں میں سے کون سا مقام میں بہتر ہے اور مجلس میں زیادہ اچھا ہے ؟      ( سورہ مریم )

دوسری جگہ ہے اسی طرح انہیں دھوکہ لگ رہا ہے اور کہ اٹھتے ہیں کہ کیا یہی وہ اللّٰہ تعالٰی کے پیارے بندے ہیں ، جنہیں اللّٰہ تعالٰی نے ہم پر فضیلت دی ہے ؟ پھر ان کے اس مغالطے کا جواب دیا کہ ان سے پہلے ان سے بھی ظاہر داری میں بڑھے ہوئے اور مالداری میں آگے نکلے ہوئے لوگ تھے ، لیکن ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہم نے انہیں تہس نہس کر دیا ، ان کی مجلسیں ، ان کے مکانات ان کی قوتیں ، ان کی مالداریاں ان سے سوا تھیں ، شان و شوکت میں ، ٹیپ ٹاپ میں ، تکلفات میں ، امارت میں اور شرافت میں ان سے کہیں زیادہ تھے ، ان کی تکبر اور عناد کی وجہ سے ہم نے ان کا بھس اڑا دیا ، غارت اور برباد کر دیا ، فرعونیوں کو دیکھ لو!  ان کے باغات ، ان کی نہریں ،  ان کی کھیتیاں ، ان کے شاندار مکانات اور عالیشان محلات اب تک موجود ہیں اور وہ غارت کر دئیے گئے ،  مچھلیوں کا لقمہ بن گئے ، مقام سے مراد مسکین اور نعمتیں ہیں ، ندی سے مراد مجلسیں اور بیٹھکیں ہیں ، عرب میں بیٹھکوں اور لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں کو نادی اور ندی کہتے ہیں ، مشرکین کا قول تھا کہ ہم بہ اعتبار دُنیا تم سے بہت بڑھے ہوئے ہیں لباس میں ، مال میں ،  متاع میں  صورت شکل میں ہم تم سے افضل ہیں ۔          ( تفسیر ابن کثیر )

یعنی ان کا استدلال یہ تھا کہ دیکھ لو ، دنیا میں کون اللّٰہ کے فضل اور اس کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے ، کس کے گھر زیادہ شاندار ہیں ؟ کس کا معیار زندگی زیادہ بلند ہے ؟ کس کی محفلیں زیادہ ٹھاٹھ سے جمتی ہیں ؟ اگر یہ سب کچھ ہمیں میسر ہے اور تم اس سے محروم ہو تو خود سوچ لو کہ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم باطل پر ہوتے اور یوں مزے اڑاتے اور تم حق پر ہوتے اور اس طرح ختہ و درماندہ رہتے ؟ مزید تشریح کے لیے تفہیم القرآن ملاحظہ ہو ۔

ہوتا یہ تھا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی محفل میں غریب غربا مثلاً سیدنا بلال ، عمار ابن یاسر، خباب ابن ارت ، یاسر اور بہت سے غریب صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالٰی علیھم اجمعین موجود رہتے تھے ، اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مجلس میں عمدہ قالین ، بہترین طعام کا انتظام نہ تھا اس کے برعکس کفار کی مجلس میں بہترین انتظام ہوتا تھا ، تو اسی وجہ سے وہ لوگ مسلمانوں کی غربت و افلاس کا مذاق اڑاتے تھے ۔

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اللّٰہ تعالٰی سے ڈر جاؤ اور سیدھی بات کہو ۔ ( الاحزاب )

سیدنا انس رضی اللّٰہ عنہ فرماتےہیں کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نےفرمایا : ٫٫ مومن مومن کا آئینہ ہے ،، ۔

یہ حدیث بڑی ہی مختصر مگر بہت ہی جامع ہے ، اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ایک مومن کو دوسرے مومن کے لیے آئینہ کے مانند قرار دیا ہے ، ایک شخص جب آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اپنے چہرے پر کوئی گندگی دیکھتا ہے تو وہ قطعاً گوارا نہیں کرتا کہ وہ اپنے چہرے پر پلیدگی باقی رکھے بلکہ وہ اسے فوراً زائل کرتا ہے ، ایک مومن کو بھی چاہیے کہ جب وہ کسی مومن کے اندر کوئی کمی دیکھے تو اسے اپنا آئینہ سمجھتے ہوئے اس کی کمی کو اپنی کمی سمجھے اور اسے زائل کرنے کی کوشش کرے ۔

آئینہ کے سامنے ایک فقیر کھڑا ہو یا بادشاہ وقت ، وہ کسی سے نہیں ڈرتا اور بے خوف و خطر حقیقت کا اظہار کرتا ہے ، اور ایک مومن کو بھی دوسرے مومن کے تئیں اسی آئینہ کی طرح بے باک ہونا چاہیے ، اور کسی شخصیت سے مرعوب ہو کر اسے منکر کی آزادی نہیں دینی چاہیے ۔

آئینہ منہ کی بات منہ پر کہتا دل میں کچھ نہیں رکھتا ایک مومن کو بھی چاہیے کہ کسی مومن کو تنبیہ کرنے کے بعد دل میں اس کے خلاف کچھ نہ رکھے ۔

آئینہ آپ کی بات آپ ہی کو بتاتا ہے ، پیٹھ پیچھے کسی اور سے نہیں کہتا ، ایک مومن کو بھی چاہیے کہ اپنے بھائی کی برائی اسی کے سامنے پیش کرے ، پیٹھ پیچھے غیبت نہ کرے ، آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ، ایک مومن کو بھی ایک مومن کے تعلق سے متعلق ہمیشہ سچی بات ہی کہنی چاہیے ۔

آئینہ اچھائیاں اور برائیاں دونوں بیان کرتا ہے ، کسی ایک ہی پر اکتفا نہیں کرتا ، ایک مومن کو بھی چاہیے کہ جب وہ کسی شخصیت وغیرہ پر تبصرہ کرے تو دونوں پہلو سامنے رکھ دے ۔

آئینہ ہر چیز کو اس کی اصل مقدار و کیفیت میں پیش کرتا ہے ، مبالغہ یا تنقیص نہیں کرتا ، مثلاً ہم آئینہ کے سامنے ہیں ، ہمارے چہرے پر تین داغ ہیں تو آئینہ صرف تین داغ ہی بتائے گا ، کمی یا زیادتی نہیں کرے گا ، ایک مومن کو بھی چاہیے کہ وہ ایک مومن کے تعلق سے کسی بھی قسم کی مبالغہ آرائی یا تنقیص سے کام نہ لے ۔

اور سب سے بڑھ کر قرآن ایک آئینہ ہے ، جس کو ہم سب نے غلاف میں ڈال دیا ہے ، ( الا ما شاء اللّٰہ ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ،  رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں ، اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور اگر احساس نہ ہو اپنے بھی اجنبی بن جاتے ہیں ۔

آج دینی معاملے میں اکابرین کی اتباع چھوڑ کر ہم آخرین کی اتباع کرتے ہیں ، مثلاً اگر کوئی دینی معاملہ ہوتا ہے تو سب سے قبل بزرگوان دین کی اتباع کرتے ہیں ، پھر تبع تابعین ، پھر تابعین ، پھر صحابہ کرام کی ذات گرامی اور سب سے آخر میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث اور سنت پر عمل کرتے ہیں ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے پہلے احادیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ، پھر سنت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ، پھر صحابہ کرام کی اتباع ، پھر تابعین ، پھر تبع تابعین اور سب سے آخر میں بزرگوان دین کی اتباع دینی معاملے میں ، اور سائنسی معاملے میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اقوال کی اتباع اور اکابرین کی اتباع ، دو متضاد باتیں ہیں ۔

صرف شریعت اسلامیہ کے قوانین الٰہیہ میں تحقیق نہیں کی جا سکتی ، حرام جس کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اللّٰہ تعالٰی کے حکم سے حرام قرار دیا وہ ہمیشہ حرام ہی رہے گا ، جو کتاب اللّٰہ میں حلال ہے وہ ہمیشہ حلال ہی رہے گا ۔

لیکن بہت سی قرآنی آیات سائنسی بھی ہیں ، جنہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ادوار کی تحقیق کو مشعل راہ بنا کر مزید دور حاضر کی نئی تکنیک کو سامنے رکھ کر تحقیق کی ضرورت ہے ،اس سے ہم دور ہو چکے ہیں ، کیونکہ ہم کتاب اللّٰہ کو صرف آخرت کی کتاب مانتے ہیں ۔

پس اللّٰہ عالی شان والا سچا اور حقیقی بادشاہ ہے، تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کراس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری کی جائے ، ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار میرا

 علم بڑھا ۔         ( سورہ طہ)

علم ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ، اور انسان کو علم کے کسی بھی درجے پر قناعت کر کے نہیں بیٹھنا چاہیے ، بلکہ ہر وقت علم میں ترقی کی کوشش اور دعا کرتے رہنا چاہیے ، اس دعا میں یادداشت کی قوت کی دعا بھی شامل ہے ، اور معلومات کی زیادتی اور ان کی صحیح سمجھ کی بھی ۔

واضح رہے کہ رب زدنی علما سے قبل قرآن کریم کا ذکر ہے ، یعنی کہ اگر علم حاصل کرنا ہے تو صرف اللّٰہ کی کتاب سے ہی حاصل ہوگا ، قرآن کریم کو آخرت کی کتاب کا نام دے کر صرف قرآن خوانی اور تعویذات کا کام لیا گیا ، قرات کو فروغ دیا گیا ، قاریوں پر انعام و اکرام کی بارش کی گئی ، جو جتنا گا کر قرآن پڑھ سکتا ہے ، اس کی قرات کو اتنا ہی پسند کیا گیا ، لیکن کتاب اللّٰہ کے قوانین کی بات کبھی بھی نہیں کی گئی ۔

یہودیوں کا اصول ہے کہ مسلمانوں کو ہر عبادت کی سہولت دو لیکن اگر کوئی شخص یا تنظیم قانون شریعت کی بات کرے ، اللّٰہ کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے تو اس کو فوراً مار دیا جائے ، تنظیم کو نیست و نابود کر دی  جائے ، آج ہم داعی حق کا فریضہ انجام تو دیتے ہیں لیکن اس کے اصول سے ناواقف ہیں ۔

مولانا حامد صاحب فرماتے ہیں کہ داعی حق کو نرم خو اور اعلٰی ظرف ہونا چاہیے ، اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نرم دلی ، اخلاق حسنہ سے اور درگزر کرنے کی ادا سے لوگ بہت زیادہ متاثر تھے ، اسلام کے اشاعت میں ان خصوصیت کا بہت دخل ہے ۔

مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں ، نرم خوئی ، خوش اخلاقی ، عفو و درگزر اور لطف و مہربانی والی صفات اگر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اندر نہ ہوتیں تو اصلاح خلق کا جو کام آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سپرد ہے ، وہ حسبِ منشا انجام نہ پاتا ، لوگ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنی اصلاح اور تزکیہ اخلاق کا فائدہ حاصل کرنے کے بجائے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بھاگ جاتے ۔

جو شخص رشد و ہدایت اور دعوت الی اللّٰہ اور اصلاح خلق کا ارادہ کرے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ صفات اپنے اندر پیدا کرے ،  کیونکہ جب اللّٰہ تعالٰی کے محبوب رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سختی برداشت نہیں ہو سکتی تو پھر کس کی مجال ہے کہ وہ تشدد و کج خلقی کے ساتھ خلق اللّٰہ اپنے اردگرد جمع کرے اور ان کی اصلاح کا فرض انجام دے سکے ، اس آیت میں حق تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ اگر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تند خو ، سخت طبیعت ہوتے تو لوگ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس سے منتشر ہو جاتے ، اس سے معلوم ہوا کہ مرشد و مبلغ کے لیے تند خوئی ، سخت کلامی زہر ہے اور اس کے کام کو ضائع کرنے والی چیز ہے ۔            ( معارف القرآن )

دنیا میں ہرانسان چاہتا ہے کہ وہ کامیاب ہو ، کامیابی و کامرانی کا سہرا اس کےسر آئے ، ہمارے لیے دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی ضروری ہے ۔

" جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد بجزاس کی کہ کوئی صحیح سالم دل لے کر خدا کے پاس آیا ہو " ۔ ( الشعراء )

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :سن لو! جسم میں گوشت کاایک لوتھڑا ہوتا ہے جب وہ ٹھیک ہواتو پورا جسم ٹھیک ہو گیا اور جب وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا سن لو! وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے ۔        ( متفق علیہ )

مسند احمدکی ایک روایت ہے کہ کسی شخص کا ایمان درست اور صحیح وسالم نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل اور دل کا قبلہ درست نہ ہو اور کسی شخص کا دل درست نہیں ہو سکتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو ۔

حکیم لقمان نے فرمایا : زبان و دل اگر پاک ہوں تو اس سے زیادہ پاکیزہ اور خوبصورت کوئی چیز نہیں اور جب یہ دونوں گندے اور ناپاک ہوں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے ۔

اس دل کی حیثیت یہ ہے کہ یہ پورے جسم و جاں کا حکمراں ہے ،اس کی حیثیت اور مرتبہ بادشاہ کی ہے ، وہ ظاہر و باطن سب پر اثر انداز ہوتا ہے ، کوئی شخص کسی کام کے لیے آپ کو کتنا آمادہ کرے اور اکسائے مگر آپ کا دل آمادہ نہ ہو اس کی طرف راغب نہ ہو تو وہ کام انجام نہیں پا سکتا ، اور دل مطمئن ہو جائے تو ہر کام آسان ہو جاتا ہے،اعضاء و جوارح سب اس کی آمادگی کے ساتھ ہی حرکت کرنے لگتے ہیں ، آنکھ سے دیکھنا بصارت ہے ، جب کہ دل سے دیکھنا بصیرت ہے ، بصیرت نہ تو بصارت کا زیادہ فائدہ نہیں ، آدمی دل کی نگاہ سے نہ دیکھے تو آنکھ رکھتے ہوئے بھی اندھا ہو جائے گا ۔

 " آنکھیں اندھی نہیں ہوتی سینوں میں دل اندھے ہو جاتے ہیں " ۔   ( الحج )

دل کے طلب گار ہو تاکہ شراب کی طرح تازہ اور پھولوں کی طرح خوش و خرم رہو،اس دل کی حفاظت کرنا ،اسے تابندہ درخشاں رکھنا اور اس کا تزکیہ کرنا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔

اللّٰہ رب العزت ہم سب کو اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح کی بھر پور کوشش کرنے کی توفیق نصیب عطا فرمائے ۔

آمین ثم آمین یارب العالمین