شب معراج

روشانہ جمیل

 عوام میں جومشہور ہے کہ 27 رجب کی شب ہی شب معراج ہے کیا یہ صحیح بات ہے یا غیرمُستند بات ہے؟اس بارے میں تفصیل یہ کہ ماہِ رجب سے متعلق

اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے کی 27 تاریخ کو معراج کا واقعہ پیش آیا۔

 واضح رہے کہ معراج کا یہ واقعہ کس مہینے میں اور کس تاریخ کو پیش آیا، اس سے متعلق یقینی طور پر کچھ کہنا بہت ہی مشکل ہے۔عام طور پر مشہور تو یہی ہے کہ 27 رجب کی رات کو یہ واقعہ پیش آیا لیکن واضح رہے کہ قرآن وسنت سے اس حوالے سے کوئی واضح اورمعتبر بات ثابت نہیں حتی کہ اس رات کی تعیین میں  حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اوراکابرِ امت کے بہت سے اقوال ہیں یہی وجہ ہے کہ اس شدید اختلاف کے پیشِ نظر اکابر وعلماء کے نزدیک رجب کی 27 تاریخ ہی کو یقینی طور پر شبِ معراج قرار دینا درست نہیں۔ اس اختلافی رائے کی وجہ یہ ہے کہ شبِ معراج کی تاریخ سےمتعلق امت کا کوئی شرعی حکم وابستہ نہیں تھا اس لیے اللہ تعالی کی طرف سے اس تاریخ کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ شبِ معراج سے متعلق نہ تو حضور ﷺ نے کوئی حکم یا فضیلت بیان فرمائی، نہ ہی صحابہ کرام میں اس حوالے سے کسی خاص عمل یا جشن وغیرہ کا اہتمام تھا اور نہ ہی حضرات تابعین وتبع تابعین میں۔

کیا شبِ معراج کی کوئی فضیلت یا عبادت ثابت ہے؟۔

واضح رہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ رات بڑی ہی فضیلت اور سعادت والی تھی جس میں معراج کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا، اور یہ ایسی فضیلت ہے جو کہ کسی اور شب اور تاریخ کو حاصل نہیں لیکن اس کے علاوہ شبِ معراج کے بارے میں قرآن وحدیث سے کسی قسم کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں اور نہ ہی نبی کریم ﷺ اور ان کے صحابہ کرام نے شبِ معراج منانے یا جاگ کر گزارنے کا اہتمام کیا ہے۔ اسی طرح اس رات سے متعلق مخصوص نماز، روزہ یا وظائف یا کوئی بھی عمل معتبر دلائل سےثابت نہیں۔ اس لیے آجکل لوگوں نےشبِ معراج 27 رجب سے متعلق جس قدر بھی فضائل اور عبادات ایجاد کی ہیں وہ سب خود ساختہ ہیں، جن سے اجتناب ضروری ہے۔

اور یہ جو 27 رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِ معراج ہے اور اس شب کو بھی اسی طرح گزارنا چاہیے جس طرح شبِ قدر گزاری جاتی ہے اور جو فضیلت شبِ قدر کی ہے، کم وبیش شبِ معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے،یہ سب بے اصل باتیں ہیں،شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔ دوسری بات یہ کہ واقعہ معراج سن 5 نبوی میں پیش آیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد 18 سال تک آپ ﷺ نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو، یا اس کو منانے کا حکم دیا ہو، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شبِ قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے، نہ تو آپ کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے، اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود آپ ﷺ جاگے اور نہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔

پھر سرکارِ دو عالم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریبًا سوسال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں موجود رہے، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے 27 رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو، لہٰذا جو چیز حضور اقدس ﷺ نے نہیں کی اور جو چیز آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کی۔ اس کو دین کا حصہ قرار دینا۔ یا اس کو سنت قرار دینا، یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے۔

واضح رہے کہ اس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے، یوں تو ہررات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے، لہٰذا کسی بھی رات عبادت کے لئیے جاگنا درست ہو گا ، لیکن خاص 27ویں رجب کی رات میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ماہِ رجب میں بہت سے لوگ 27 رجب کے روزے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، اس کو ہزاری روزہ کہتے ہیں اور اس کے من گھڑت فضائل بھی بیان کرتے ہیں، واضح رہے کہ ماہِ رجب کی 27 تاریخ کو روزہ رکھنے کی خاص فضیلت معتبر احادیث سے ثابت نہیں، اس لیے ان غیر معتبر فضائل کی بنیاد پر  اس دن روزہ رکھنا  درست نہیں، البتہ چونکہ یہ 27 تاریخ ماہِ رجب کے عام دنوں کی طرح ایک دن ہے اس لیے ان بے بنیاد اور من گھڑت باتوں سے بچتےہوئے اگر کوئی شخص اس کو  رجب کی عام تاریخ سمجھتے ہوئے اس دن نفلی روزہ رکھ لیتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ لہذا اس مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی عبادت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں تخصیص اور التزام کے بغیرجس قدر ہو سکے اس پورے مہینے میں عبادت کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔