حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی

خدیجہ امجد

"السلام علیکم بچو کیا حال ہے آپ سب کا" دادی امی نے کہا۔

"'ہم ٹھیک ہیں، آج بہت گرمی تھی اسکول میں" سارہ نے کہا۔

"دادی جان آج آپ نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ آپ ہمیں کہانی سنائیں گی" علی نے خوشی سے کہا۔

"ہاں ہاں مجھے یاد ہے لیکن پہلے اپنےکپڑے بدل کرکھانا کھا کراوراسکول کا کام کرو پھر میں رات کو سناؤں گی" دادی جان نے کہا۔

بچوں نے اپنا سارا کام کر لیا اورجب کہانی سننے کی باری آئی تو سب دادی جان کےکمرےمیں آکر بستر پر بیٹھ گئے ۔ دادی جان نے کہانی شروع کی۔

"بچو سنو! آپ کو پتا ہے کہ بہت سال پہلےابراہیم علیہ السلام  کو ایک رات خواب آیا کہ وہ اپنی بہت ہی قیمتی چیزاللہ کی راہ میں دے رہے تھے۔ انہہں یہ خواب کئی دن تک مسلسل آتا رہا تو انہوں نے ہر روز تین دن تک سو اونٹ ذبح کر کےغریبوں میں تقسیم کیےلیکن پھر بھی وہ خواب انہیں آیا تو انہوں نے سب سے قیمتی چیز اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں دینے کا ارادہ کیا۔ انہیں اپنا بیٹا بہت ہی بڑھاپے میں ملا جب وہ 84 سال کےتھے اس لیے وہ ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ انہوں نے جب اپنے بیٹےسے پوچھا تو انہوں نے کہا 'میں اس کے لیے تیار ہوں۔'  "

"حضرت ابراہیم علیہ السلام  تو بہت فرمانبردار تھے۔انہوں نے اللہ کی بات سنی تھی"علی نے کہا۔

"جی ہاں ،حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو لیا اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی اور اللہ سے دعا مانگ کر ذبح کیا۔ جب انہوں نے پٹی اتاری تو دیکھا کہ ان کا بیٹا ان کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور انہوں نے ایک مینڈھا ذبح کیا، اللہ تعالی کے حکم سے ان کے بیٹے اسماعیل کی جگہ وہاں ایک مینڈھا آگیا تھا ۔اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو 'خلیل اللہ ' کا لقب دیا جس کا مطلب ہے اللہ کا دوست اور حضرت اسماعیل کو 'ذبیح اللہ' کا لقب دیا جس کے معنی ہے اللہ کی راہ میں ذبح ہونا۔

اور اسکے ساتھ  آج کی ہماری کہانی ختم"۔

"واہ یہ تو بہت یہ اچھی کہانی تھی۔ مجھے بہت مزا آیا"سارہ چلائی

دادی جان نے کہا"اور اسی سلسلے  ہم عید الاضحٰی مناتے ہیں، جس میں ہم جانور ذبح کر تے ہیں اور ہمیں اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کے ہمیں اللہ کی فرمانبرداری کرنی چاہیے جو کچھ بھی ہو جائے اور ہمیں اپنے والدین کی اطاعت کرنی چاہیے تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔