قصور کس کا؟؟؟

افروزعنایت

وہ تو سمجھ رہی تھی کہ اس کی دونوں بیٹیاں دھاڑیں مارمارکر اس سے لپٹ روئیں گی لیکن اس کے سامنے کھڑیں دونوں لڑکیاں ہرقسم کے

جذبات سے عاری تھیں۔ سرسری طور پرانہوں نےماں کوسلام  کیااس کی آنکھیں امڈ آئیں ۔ دس سال کے بعد وہ ان سےملی تھی کتنی تڑپی تھی ،روئی تھی ان کے لیے۔ لیکن یہاں تو جیسے سناٹا تھا۔ شاید کسی اجنبی سےملتے وقت بھی ایسا نہ ہو۔اس نے زبردستی دونوں کوگلے لگایا پھر دونوں سامنے دادی کے ساتھ جاکر بیٹھ گئیں۔ بیٹا میرے ساتھ یہاں آکر بیٹھو۔ ان کا جواب نا پاکر وہ خود ہی ان کے قریب بیٹھ گئی۔

 کونسی کلاس میں پڑھتی ہو۔ دونوں نےاسے عجیب نظروں سے دیکھا کہ کیسی ماں ہے،جسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کی دونوں جوان بیٹیاں کس کلاس میں پڑھتی ہیں ۔ پھروہ. اپنے سوال پر خود ہی شرمندہ ہوئی۔  دونوں بیٹیوں کی طرف سے سرد مہری دیکھ کر وہ ان کی دادی کی طرف متوجہ ہوئی آپ۔۔ آپ کیسی ہیں۔

دادی تمہیں میں نےفون پر بتایا تھا کہ ان کےابو کاانتقال ہوگیا ہے،اگرتم چاہو توانہیں اپنے ساتھ لے جاسکتی ہو۔کس مشکل دوراہےپرقسمت نے لا کھڑا کیا تھا  کہ دس سال پہلے وہ ان بچیوں کےلیے کتنا تڑپی تھی ،روئی چلائی لیکن اس ظالم شخص نے ان سےملنے بھی نہیں دیا۔

 اماں ابا نے یہ کہہ کر صبر دلوایا کہ وہ ان کا باپ ہے،تم پرتوظلم کرسکتا ہے لیکن بچیوں پرنہیں اوران دو بچیوں کے ساتھ کون تمہیں اپنائے گا،لہذا انہیں باپ کے ساتھ ہی رہنےدواور آج دس سال کے بعد یہ دونوں اس کے سامنے تھیں لیکن اجنبی ۔۔۔۔۔ آج وہ اس قابل بھی نہیں تھی کہ انہیں اپنے ساتھ لے جاسکےایک بڑاامتحان تھا وہ دادی کو کیا جواب دے۔

شبیر۔۔۔عالیہ میں تمہیں تمہاری بچیوں سے ملنے سے نہیں روک سکتا نہ روکوں گالیکن یہ ممکن نہیں ہے ہمارے وسائل۔۔۔۔۔  میرا مطلب ہے ابھی انہیں وہیں رہنے دو وہ بچیاں بھی یہاں آکر ڈسٹرب ہوں گی یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں۔۔۔۔۔  جتنا تم سمجھ رہی ہو۔اور پھر ہمارے یہ دونوں بچے۔۔۔۔  انہیں ان کے بارے میں کچھ خبرنہیں ہم انہیں کیا بتائیں گے۔۔۔۔وہ بچیاں یہاں رہ بھی سکیں گی یا نہیں۔

عالیہ بڑی مجبور تھی اسے بار بار دونوں بچیوں کا رویہ بھی یاد آرہا تھا لیکن اس میں ان کا بھی قصور نہیں تھا۔  اسی ادھیڑ پن میں کا فی دن گزرگئے مجھے ان بچیوں سے ملتے رہناچاہیے۔۔۔ شبیر صحیح کہہ رہا ہے ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ سب صحیح ہوجائے گا ۔ میں کل ہی ان سے ملنے جاؤں گی ۔۔۔ رات کو کاموں سے فارغ ہوکر وہ لاونچ سے اپنا موبائل فون اٹھانے آئی تو فون میں انجانے نمبرسے اڈیو میسج دیکھ کر کھولا۔۔۔۔۔ ہم جانتی ہیں آپ ہمیں نہیں لے کر جاسکتیں آپ کے بہت سے مسائل ہیں لیکن ہم نے زندگی کے کئی سال آپ کے بغیر گزارے ہیں، وہ دن جب بیٹیوں کو خصوصی طور پر ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ اب تو آپ کے بغیر جینے کی عادت پڑگئی ہے۔۔۔۔  آج ہم بڑی پھپھو کے پاس لندن جارہی ہیں۔  وہاں انہوں نے ہمارا ایڈمیشن کروایا ہے ہم تو آپ سے دعاؤں کی بھی درخواست نہیں کرسکتیں  کیوں کہ آپ کی دعاؤں کے بغیرجینے کی عادت جو پڑگئی ہے۔۔۔ ہماری فلائٹ کا وقت ہوگیا ہے۔ آپ سوچ رہی ہوں گی کہ مجھے اتنی بڑی بڑی باتیں کس نےسکھائیں تو امی ہم جیسے بچے تواپنی عمرسے پہلے ہی بڑے ہوجاتے ہیں ۔زمانہ انہیں بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔

قصور آپ کاتھا یا بابا کا لیکن متاثر تو ہم دونوں ہوئی ہیں ہمارایہ ماضی توزندگی بھرہماراپیچھا کرتا رہے گا ۔اللہ حافظ

اپنی بیٹی سیرت کا میسج سن کر عالیہ کی آنکھوں سے آنسو امڈ آئے بے بسی کےیہ آنسو تھےجو رک ہی نہیں رہے تھے۔ بشک قصور کس کا تھا لیکن تکلیف سے تومیں بھی گزررہی ہوں۔ پھر اس نے اسی نمبر پرمختصر چھوٹا میسج کیا۔ ہوسکےتو مجھے معاف کردینا۔ میری بیٹیوں۔۔۔ ہمیشہ خوش رہو۔