مضبوط سہارا

قدسیہ ملک 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

اللہ  کرے  تجھ  کو  عطا  جِدّتِ کردار

دور افتادہ گاؤں کےچھوٹے سے قصبے میں بچپن کے ایام کوسیر تفریح اور شغل میلے میں گزارنے والی رشیدہ بی بی کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی خوشی اس کے بیٹے برکت اللہ کی پیدائش تھی۔ وہ خوش کیوں نا ہوتی۔ سوہنے رب نے اسے اب اولاد جیسی نعمت دے کراسےخوش قسمت جوکردیاتھا۔

بڑی بھاگوان ہے بھئی۔ کیسے دن پھیر دیئےرب نے تیرے آنے سے"۔اس کی ماں بچے کی پیدائش پربہت خوش تھی۔ وہ بھی ماں کی خوشی میں خوش تھی۔ بس وہ یہی جانتی تھی کہ دنیا میں وہی خوش نصیب ہے جو اولاد اورمال والا ہے۔ وہ اس سے زیادہ بھلا جان بھی کیسےسکتی تھی۔ اس نے اپنی اماں کو بھی ایسی ہی زندگی گزارتے دیکھا تھا۔  چارجماعتیں پڑھانے کے بعد اماں کو اس کی شادی کی فکر ستانے لگی تھی۔ ایک شام جب سہیلیوں کے ساتھ کھیل کر گھر آئی تو اماں نےاس کا عید کا جوڑا نکال رکھاتھا۔اس کے پوچھنے پر اماں بولی "صبح لڑکے والےدیکھنے آرہے ہیں۔ بس یہی جوڑا پہن لینا"اور وہ سوکر اٹھتےہی گھر کے کاموں سے فارغ ہوکر تیار ہوگئی۔

گیارہ بجے ساتھ کے گاؤں کے زمیندار کے بیٹےکا رشتہ لانےوالی مائی اپنےساتھ ایک خاتون کو لےآئی اس کےساتھ اس کی دوشادی شدہ بیٹیاں بھی تھیں۔ وہ خوب بن ٹھن کر تیار ہوکرآئی تھیں۔ رشیدہ پیاری تو تھی تبھی تورضیہ خالہ کو پہلی نظر میں بھاگئی۔ لمبی دبلی پتلی، بھاگ بھاگ کر کام کرنے والی ۔اسےاپنے اکلوتےبیٹے کیلئےاور کیا چاہیے ھا سو چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔ وہ اپنے گھر سے نکل کر ساتھ والے گاوں میں رمضان کی دلہن کی حیثیت سےآگئی۔ اماں ابا اپنی اکلوتی اولاد کو شادی پر حسب تو فیق جو دے سکتے تھے۔ وہ دے دلاکر بچی کو رخصت کردیا۔ گھر میں اب چھوٹے دو بھائی اور ایک چھوٹی بہن رہ گئی۔"ماشاء اللہ بھٹی مبارک ہو،اتنی اچھی جگہ شادی ہوئی ہے اوردیکھ کتنی جلدی سوہنے رب نے تیرا بوجھ ہلکا کردیا" ۔رشیدہ کی ماں یہ سب باتیں سن کر بہت خوش ہوتی تھی۔

وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ حالات نے پلٹا کھایا۔ زمیندار کی بڑی بیٹی جو کہ شروع دن سے بھابھی سے حسد میں مبتلاتھی بھابی کے خلاف اماں کے کان بھرنے شروع کردیئے۔ "اماں اس منحوس  نے آپ کو دیاہی کیا ہے۔ گوری چمڑی سے کیاہوتاہے۔ ایک غریب گھر کی لڑکی لاکر تو نے میرے چاند سے بھائی کی زندگی خراب کردی"۔

رمضان کی ماں پہلے تو خوب بہو کی طرف داری کرتی کیونکہ وہ چھوٹے گھر سے لڑکی لائی ہی اس لئے تھی کہ وہ کبھی اپنے حق کے لئےکھڑی نہیں ہوگی۔ وہ اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی تھی جب سب ٹھیک تھا تو اسے کیا مسئلہ تھا۔ اللہ نے شادی کے بعد بیٹا بھی دے دیاتھا لیکن رفتہ رفتہ ماں رمضان کی بڑی بہن کے کہنے سننے میں آکر رشیدہ کو بات بات پر سنانےلگی۔ رمضان جب ڈیرے سے گھر واپس آتا تو کوئی نا کوئی لڑائی اور جھگڑا اس کا منتظر ہوتا۔

بڑی بہن کو اپنے سسرال میں سکون نصیب نا ہوسکا تو سوچا کہ میں کیوں اپنی بھابھی کو سکھ سےرہنے دوں۔ وہ روز میکے آتی اور اماں کو اپنی بات سمجھاتی اماں تو نے میرے بھائی کو کس کے متھےمار دیا۔صحیح جہیز تک تو لائی نہیں جب کہ تو نے تو مجھے اتنا سب کچھ دیا پھربھی سسرال میں میری کوئی عزت نہیں کرتااور اس کا بیٹا بھی ہر وقت اپ کے پاس ہوتاہے۔اسے کہیں اپنے بچے کو سنبھالے اور گھر کے کام بھی کرے۔آخر اسے کرناہی کیا ہوتاہے۔

ماں بیٹی کی باتوں میں آکر ہروقت بہو کو طعنے دیتی رہتی اس کے بچے کو اپنے کمرے میں ناجانےدیتی۔۔۔رشیدہ کی ساس نےگھرکا فریج ٹیلیفون اور دوسرے تمام اہم سامان کو اپنے کمرے میں رکھوادیا۔۔۔

رشیدہ پر زندگی تنگ ہونا شروع ہوگئی۔ رمضان بھی روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر رشیدہ پر ہاتھ اٹھانے لگا۔۔۔ رشیدہ کی ماں نے جب یہ حالات سنے تو بیٹی سے کہا "بیٹی تونمازمت چھوڑ۔تجھے میں نےشروع دن سےایک ہی بات کہی کہ نماز و قرآن  کو اپنا ساتھی بنالے۔ تجھے میں زیادہ نا پڑھا سکی لیکن قرآن پڑھنا توسکھادیا نا تجھے۔

رشیدہ سوچتی ہے کہ واقعی ان ڈھائی سالوں میں گھر کے کام اور بچے کی دیکھ بھال میں واقعی وہ نماز قرآن کو یکسر فراموش کرچکی تھی۔اس نے سسرال جاکر اب یہی کیا جب کوئی تکلیف ہوتی تو وہ قرآن کھول لیتی یا نماز کی نیت کرکے دورکعت نماز پڑھ لیتی لیکن گھر کے ان گنت کاموں میں پابندی نا کرپاتی۔۔۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔رشیدہ کی اماں کا اچانک انتقال ہوگیا۔ تین دن کے تیز بخار سے اماں بیچاری جان کی بازی ہار گئی۔ یہ صدمہ برداشت کرنارشیدہ کیلئےکسی بھی طرح آسان کام نا تھا۔ اماں ہی تو اس کے دکھ درد کی ساتھی تھی ایسی کوئی سہیلی نہ تھی کہ جس سے اپنے دل کی باتیں اپنے سسرال والوں کی اذیتیں بیان کرسکے۔

جب سوگ کے بعد گھر آئی تو کسی نے اس سےتعزیت کرنا تک گوارا ناسمجھا۔ وہ اپنے گھراور بچوں کےکاموں میں مصروف تھی کہ ساس کمرے سے نکل کر باورچی خانے میں جہاں وہ کھڑی آٹا گوندھ رہی تھی،ایک دم چیختے ہوئے آئی اور بولی "منحوس اپنی ماں کو کھاگئی اب میرے بیٹے کا پیچھا چھوڑ دے تویہ کہہ کرساس نے اس سےآٹا گوندھنے کی پرات چھین لی۔۔۔۔ یہی ساس تھی نا جو اسے بھاگوان کہتی تھی اس نے کرب سے سوچا۔اسی وقت اسے خیال آیا کہ اماں کی نصیحت تھی قرآن پاک پڑھنا ناچھوڑنا ۔۔۔اس کی ماں نے اس کے پڑھائی کےشوق کو دیکھتے ہوئے اسےشادی پر  باجی سے منگواکر ترجمے والا قرآن دیاتھا۔۔۔ کبھی اس نے کھولا ہی نہیں تھالیکن اماں کی آخری وصیت سمجھ کر اسے کھولا اور پڑھنا شروع کردیا۔۔۔

ہرآیت ہر سورت پر رشیدہ کو یہ گمان ہوتاکہ یہ آیت اسی کے لئے اتاری گئی ہے۔سسرال والوں اورشوہر کی اذیتیں بڑھتی چلی گئیں لیکن قرآن سے مضبوط رشتہ باندھ لینے کے بعد اب اسے کسی بھی چیز کا خوف نا تھا۔

دو ماہ بعد سسرال سے گھر آئی تو سارے بہن بھائی اس سےلپٹ گئے۔ابا کے انتقال کے بعد اماں نےکبھی انہیں کسی کی کمی محسوس نا ہونے دی لیکن اب گھر آتےہی ایک بڑاخلا پیداہوگیا۔ اس نے اس دن میکے آکر سب سےپہلا کام یہ کیا کہ بہن اوربھائیوں کو بلایا ۔۔سب جمع ہوئے تو رشیدہ نے کچھ آیات قرآنی اور ان کا ترجمہ انہیں سنایا اور جاتے ہوئے کہہ کر بھی گئی کہ اماں کا ترجمے والا قرآن تم لوگوں کو پڑھناہے۔جہاں ایک طرف وہ قرآن پڑھتی وہیں دوسری جانب سسرال میں اس کے گھر آنے والی رشتہ دار خواتین اور ان کی بچیاں اس سے جڑتی چلی گئی۔ یہ تمام محبتیں رشیدہ کی ساس نندوں کو ایک آنکھ نابھاتی۔۔اس نے ایسا نا کبھی سوچا نا سنا تھا کہ قرآن کو اپنالینےسے اتنے خوش گواراورمضبوط تعلقات میسر آئیں گے۔

جہاں اب رشیدہ کی ساس اورنندیں اس کےساتھ کوئی سازش یا چوٹ پہنچاتیں وہیں وہ قرآن کا سہارا لیتی۔ اس نے گھر میں اپنا کردارایسا مضبوط کرلیاکہ اسے کسی کی باتوں سازشوں تکلیفوں سےاب کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اس کو اب بس ایک ہی دھن تھی کہ خود کو قرآن کے مطلوب انسان جیسا بناسکے۔۔۔

وہ پوری کوشش کرتی کہ شوہر کو اپنےکاموں اورمحبت سےرام کرسکے۔۔۔وہ کبھی کبھی ماں بہنوں کےسامنے اسے مار کرتنہائی میں معافی بھی مانگ لیتاتھا لیکن شوہرکانوں کا کچا تھا کب تک ماں کی بے رخی برداشت کرتا۔ آخر کو ناچاہتےہوئے بھی ایک دن اسےمیکے بھیج کرچپکے سےطلاق بھی ساتھ ہی بھیج دی۔

اس نے جب سامان کھولا تو اس میں رکھےکاغذات پر کوئی ردعمل ظاہر کرنے کےبجائے اٹھ کروضوخانےچلی گئی۔ نماز کے بعد وہ رب کے حضور اتنا گڑگڑا کر روئی کہ کوئی سن لیتا تو اس کا کلیجہ منہ کو آجاتالیکن اس وقت سوائے اس کے چھوٹے بچے کے کوئی گھرپرموجود نا تھا۔بھائی اسکول اور چھوٹی بہن پڑھنے گئی تھی۔

وہ نماز سے فراغت کے بعد اٹھی اور قرآن پڑھتے لگی قرآن کاترجمہ پڑھتےپڑھتے یکایک اسے لگا جیسے اسے قرارآگیا ہو۔ وہ بالکل پرسکون ہوگئی تھی اوراب آنے والے دنوں کی اچھی امید لئے رب کے سائے کو اپنے اوپر محسوس کرتےہوئے خود کو تیار کررہی تھی۔۔۔۔آیت کا ترجمہ یہ تھا

"اور ہم ضرور تمہیں خوف خطر، فاقہ کشی ،جان ومال کےنقصانات اورآمدینوں کے گھاٹےمیں مبتلا کرکےتمہاری آزمائش کریں گے۔ان حالات میں جولوگ صبر کریں گے اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں گے "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جاناہے''۔ انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔اس کی رحمت ان پرسایہ کرے گی ۔ ایسے ہی لوگ راست رو ہیں"۔(سورہ البقرہ)