نگہت سلطانہ
"جانے وہ آئے گا بھی یا نہیں" اب دل کی سطح پر خدشات ابھرنے لگے تھے
"نہیں نہیں ایسا نہیں سوچو آئےگا کیوں نہیں" اگلےہی لمحےلاشعور سےتسلی آمیز الفاظ ابھرے
جس جگہ وہ سمٹ کر بیٹھی تھی گووہ سردی سےتو تقریباً محفوظ ہی تھی اورجو کمبل کل وہ دے گیا تھا اسے اچھی طرح لپیٹ لیا تھا اس نے اپنے گرد۔ مگر بخار تیز ہو رہا تھا۔ دل یوں بھی بیقرار تھا، بخار سے گھبراہٹ میں اضافہ ہو گیا۔ اس کی نگاہیں مسلسل باہر لگی تھیں۔ سڑک پر آنے جانے والوں کی رونق لگی تھی۔ فِیکو ڈرائی فروٹ والا اپنی ریڑھی کو دھکیلتا ہوا گزرا۔ مونگ پھلی، کاجو، ریوڑی، چلغوزے کی خوشبو اس تک بھی پہنچی۔ چھجو گرما گرم سموسے اور کھٹی میٹھی چٹنی والا گزرا بلکہ رک گیا۔ بچے بڑے اس کی ریڑھی کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ راشد کی نظرسموسہ کھاتے ہوئےاس پر پڑی، آنکھوں میں چمک لئے لپکا چاہتا تھا کہ ساتھ کھڑے بابا نے اپنی طرف کھینچ لیا۔
"یہیں پر کھڑے ہو کے کھاؤ اورجلدی کرو پھر چلیں سردی بہت زیادہ ہے۔"
ننھا محمود ٹوپی، دستانے، کوٹ کےاندر چھپا ہوااپنی امی کےساتھ چلا جا رہا تھا کہ اس پرنظر پڑی "امی وہ نیلی آنکھوں"
"چلو چلو اِدھر اُدھر دھیان نہ دو جلدی گھر پہنچیں بارش شروع ہو گئی توبہت مشکل ہو جائے گی۔"
امی نے محمود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیا اور تیز تیزقدم اٹھانے لگیں۔
بارہ سالہ رمشہ اپنے ابو کے ساتھ بائیک پر سوار تھی پل دوپل ابو نے بائیک روکی رمشہ کی نظریں اس سے چار ہوئیں۔
"ابو ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔ ابو ۔۔۔۔۔ وہ دیکھیں۔"
"چلو جلدی بیٹھو ٹھنڈ بڑھ رہی ہے،بارش بس ہواہی چاہتی ہے۔"اور پھر ایک پل میں بائیک یہ جا وہ جا۔
بے قراری جب زیادہ بڑھی تو تھوڑااٹھی اپنی جگہ سے،مگر نقاہت سے گر پڑی۔ آنکھیں بار بار جھپک کر بند کر لیں۔ مخملیں بدن بدستور تپ رہا تھا۔
چھیما دودھ دہی والا کی دکان کےبائیں طرف ایک چھوٹی سی گیلری اورگیلری میں اوپر جاتی ہوئی سیڑھیاں سیڑھیوں کے نیچے 3×2 کا ایک کمرہ کمرے میں وہ دبکی بیٹھی تھی۔ وہیں سے باہر سڑک کا نظارہ کر رہی تھی۔ انار، سیب، کینو کی ایک ریڑھی کے پیچھے چار سالہ سیف ننھے قدم اٹھاتا اسی طرف آ رہا تھا۔ سیف گیلری کے اندر داخل ہوا۔ کندھے پر پڑا چھوٹا سا بیگ کھولا۔ چھوٹی سی رکابی اور پلاسٹک کی چمچ نکالی بیگ کی دوسری جیب سے ننھا منا سا تھرما میٹر نکالا۔ 3×2 کے کمرے کے اندر اپنا منہ اور گردن ڈال کر کہا " او نیلی آنکھوں والی میں آگیا " وہ تو پہلے ہی ٹکٹکی باندھے ادھر دیکھ رہی تھی اب جو توجہ ملی تو جھوم گئی۔
ننھے سیف نے تھرمامیٹراس کے منہ میں زبان کےنیچےرکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد نکال لیا "ہوں بخار ابھی ہے نیلی آنکھوں والی! " کہہ کر تھرمامیٹر صاف کر کے واپس بیگ میں رکھا۔ ایک نیپکین فرش پر بچھایا۔ فیڈر اور چمچ اور رکابی رکھی۔ پیناڈال کے سفوف والی شیشی اور پانی کی بوتل بھی رکھی۔ چمچ میں پینا ڈال کا سفوف ڈالارکابی میں تھوڑا سا پانی ڈالا۔ چمچ نیلی آنکھوں والی کے منہ میں انڈیل دی اور پانی کی رکابی اس کے سامنے رکھ دی۔ تھوڑی دیر بعد اسی رکابی کو دوسرے نیپکین سے صاف کیا فیڈر میں سے کچھ دودھ اس میں ڈالا اور اس کے سامنے رکھ دیا وہ غٹاغٹ پی گئی۔ "ارے واہ نیلی آنکھوں والی ! تم تو بالکل ٹھیک نظر آرہی ہو'' سیف اسکے مخملیں بدن پہ پیار سے ہاتھ پھیرنے لگا۔
" میاؤں میاؤں میاؤں" اس نے تشکر آمیز انداز میں پلکیں اوپر اٹھائیں اور پھر نیچے گرا لیں۔