تو مسلماں ہے تو تقدیر ہے تدبیر تری

ثروت اقبال

  اریبہ نے اپنی مما کو بتایا کہ اس کی دوست مریم کی ا می نے اس کا داخلہ کوکنگ کلاسز میں کروا دیا ہےمگر اسے کوکنگ کا کوئی شوق نہیں ہے ۔مما نے

کہا! بیٹا  لڑکیوں کو ساری توجہ کھانا پکانےاور گھر کی ذمہ داریوں پر ہی دینی چاہیے لڑکیوں کو آگے گھر ہی تو سنبھالنا ہوتا ہے۔۔۔ جی مما گھر سنبھالنا تو خواتین کی زندگی کے لئے لازمی جز ہےمگر اس کے علاوہ معاشرے کے دوسرے بھی تقاضے ہیں جس کے لئے ہمیں گھر سنبھالنے سے بھی زیادہ سرگرم ہونا پڑے گا۔۔۔۔۔۔ ممانےترچھی نگاہ  سے اریبہ کو دیکھتے ہوئے کہا ! گھرسنبھالنے  سے زیادہ اور کیا ا ہم ہو سکتا ہے ؟

اریبہ نے کہا مما،کچھ دن پہلے آپ غازی علم دین شہید اور غازی عبدالقیوم کا ذکر کر رہی تھیں۔  مما نے کہا ہاں بیٹا مجھے یاد ہے اتنا کہتے ہوئے وہ جذباتی ہو گئیں اور یوں گویا ہوئیں۔۔۔ جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ختم نبوت کی توہین رسالت کی بات آتی ہے تمام مسلمان چاہے کسی مکتب فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ایک نقطہ  پر جمع ہوجاتے ہیں اور ان کے محبت بھرے جذبات عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ اریبہ نے انہیں بتایا کہ ہم یونیورسٹی کے لڑکے اور لڑکیاں پہلے سے زیادہ ایکٹیو ہو گئے ہیں اگر کچھ اسٹوڈنٹس بہک جانے والے ہیں تو ایک بڑی تعداد سمجھ شعور رکھنے والے طالب علموں کی بھی ہے جو دینی اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہماری پہلی ذمہ داری تحفظ ختم نبوت ہے اور ناموس رسالت ہے ہمیں لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک قادیانی پروڈکٹ کی نشاندہی کی جا رہی ہے کہ یہ نا استعمال کی جائیں ۔ اور یہ کہ انہوں نے تبدیل کر کے قرآن شائع کروائے ہیں یہودی اور عیسائی لوگ بھی ان کے ساتھ ہے وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اس کی مما اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی مگر اس کے لب و لہجے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جذبہ مہک رہا تھا۔

کچھ توقف کے بعد وہ پھر بولی ہم نوجوان دین اسلام کے وکیل ہیں ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق تحفظ ختم نبوت کے لیے کچھ کام کریں۔ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے وہ استاد ہو،عالم ہو،اسٹوڈنٹ ہوں،تاجر ہو، ریڑھی والے یا صفائی کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پھر بولی ہمارے علماء تقاریر کے ذریعے ہمارے قلب میں  تابناکی اور نئی امنگ پیدا کر رہے ہیں۔ وہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرکے ہمارے اندر گرم جوشی پیدا کر رہے ہیں ہم نوجوانوں کا کام ہے کہ بھرپور  اسلامی جذبے، بھرپور اجتماعی طاقت اور اپنے فہم و شعور کو استعمال میں لاتے ہوئے قادیانیوں کوسر اٹھانے سے روکیں۔ اس کی مما نے درمیان میں کچھ بولنا چاہیے مگر اس وقت اریبہ  کی گرم جوشی بتا رہی تھی کہ اسے کوئی نہیں روک سکتا اس کا چھوٹا بھائی عبدالرافع اس کی جوش سے بھری ہوئی آواز سن کر اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔جسے دیکھتے ہوئے وہ بولی،

سب سے زیادہ بچوں پر توجہ دینی چاہیے میرے ذمہ شعبہ اطفال ہے۔ میں نے اور سب دوستوں نے مل کر سوشل میڈیا گروپ تشکیل دیا ہے،میری دوست کی ذمہ داری ہے فیس بک پر بڑے گروپ اور پیج بنانا ہے جس میں  قادیانیت کے مختلف پہلو اجاگر کرنا ہے ، قادیانیت سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ہے اور قادیانیوں کے بارے میں معلومات دی جائینگی ۔۔۔۔ دوسری دوست الگ گروپ بنائے گی اس کی ذمہ داری ختم نبوت اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔ اس طرح دوسرے سوشل میڈیا ایپ کی ذمہ داریاں مختلف طلبہ و طالبات نے لےلی ہیں۔۔۔۔۔۔۔

ابھی اریبہ کی مما اس کی یہ باتیں سن کر حیران ہی ہو رہی تھی کہ ان کا بڑا بیٹا معاذ بھی آگیا ۔ اس کی باتوں نے انہیں اور بھی حیران کردیا جب اس نے بتایا کہ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شہر بھر میں دس مقامات پر  چھوٹے بڑے پروگرام ترتیب دیے ہیں جن میں بچے خاص طور پر مدعوہیں ۔جب بڑی عمر کے بچے اور بڑے لوگ ایک ساتھ پروگرام کا حصہ بنیں گے تو بچوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

مسعود صاحب بھی آفس سے  واپس آ چکے تھے  اور بچوں کی گفتگو کسی حد تک ان کے کانوں تک پہنچ گئی تھی ان کے چہرے پر ملے جلے تاثرات تھے جس میں حیرانی،خوشی اور اطمینان موجود تھا۔ ان کے ہاتھ میں ایک گفٹ بیگ  تھا جو انہوں نے بچوں کی طرف بڑھایا اریبہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا اور گفٹ بیگ سے  کتاب نکالتے ہوئے کہا کہ یہ تو کتاب "محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم" ہے۔ اریبہ  بولی پاپا یہ کتاب ایک سال پہلے چھوٹی پھوپھی نے ہمیں دی تھی میں اور بھائی یہ کتاب پڑھ چکے ہیں ۔ ان کی مما نے اس کے ہاتھ سے کتاب لیتے ہوئے کہا یہ تو میں بھی پڑھ چکی ہوں اب یہ کتاب میں اپنی پڑوسن کو دے دوں گی تاکہ وہ اور اس کے بچے اس سے استفادہ حاصل کر سکیں ۔