خطبہ حجۃ الوداع

طیّبہ علی

 فتح مکہ کےبعد کعبہ کو بتوں اورمشرکانہ رسومات سےمکمل طور پر پاک کردیا گیا اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم نےغزوہ کےنتیجےمیں اسلام کی

مخالف طاقتوں کو سرنگوں کیا اس کے بعد سن 10 ہجری میں حج کاارادہ فرمایا یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا پہلا اورآخری حج تھا صحابہ کرام کے سوالات کی تعداد اور جو درجوق لوگوں کی فوج اس قافلے میں شامل ہوتی گئی پیغمبر اسلام 22 ذیقعد کو اپنےساتھ قربانی کے اونٹ لیے ، مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے چار ذوالحجہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کعبہ مشرفہ پر پہلی نظر پڑتے ہی بے اختیار فرمایا "اے اللہ اس گھر کو اور زیادہ عزت اور شرف عطا فرما" حج ادا کرنے کے بعد اپنی اونٹنی قصواء پر میدان عرفات میں آخری خطبہ دیا جو رہتی دنیا کے انسانوں کے لیے باعث ہدایت ہے اور مسائل کاحل بھی بشرطیکہ عمل کرنےوالےموجود ہو ں.

 پیغمبر اسلام کا آخری خطبہ تاریخ اسلام میں انسانی میں حقوق العباد کا ایک اہم منشور ہےجس سے آنےوالے دنوں میں دنیا کی جدید تہذیب اور ثقافت پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے اقوام متحدہ کے قیام کےوقت ان کے نمائندے سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے ادارے کا منشور کیا ہے۔ قیام کن بنیادوں پر  پر کیا گیا ہے۔ اس نے جواب دیا آپ مسلمانوں کا "خطبہ حجۃ الوداع" پر یہ صورتحال حیران کن بھی ہےاور باعث شرمندگی بھی ہے کہ جو چیز ہمارے لئے راہ نجات تھی ہم نے اس سےمنہ موڑ لیا اور غیروں نےعمل شروع کر دیا وہ آج ہماری ہی تعلیمات پرعمل کرکےکہاں سے کہاں پہنچ گئے.

خطبہ کا مشن کچھ یوں تھا "لوگوں کو میری باتیں غور سےسنو! ہو سکتا ہے کہ اس سال کےبعد میں دوبارہ آپ سے یہاں نہ مل سکوں میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں تمہیں اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں اے لوگو اللہ نےسود کو حرام قرار دیا میں آج سے تمام سود کلعدم قرار دیتا ہوں.

اے لوگو میں نے تم میں ایسی کتاب چھوڑی ہے کہ تم اسے مضبوطی سےتھامے رہو گےتو میرے بعد گمراہ نہیں ہوگےعورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو تمہیں اپنی عورتوں پر حقوق حاصل ہیں بالکل اپنی ہی جیسے تمہاری عورتوں کو تم پر حاصل ہےحاصل نہیں برتری اگر ہے تو صرف تقوی کو، اپنے غلاموں کا خیال رکھو پانچ وقت کی نماز ادا کرو رمضان کےروزے رکھو زکوۃ دو اور اس طرح اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ" کہ یہ وہ خطبہ تھا جس سے زیادہ افضل اورجامع خطبہ کسی اورخطیب نے نہیں دیا یہ وقت بہت تھا جو امت مسلمہ کی تاریخ کا روشن پہلو تھا اس پیغام کو جتنے لوگوں نے وہاں سنا ان پر اسے اگلوں کو سنانے کی ذمہ داری تھی اور یہ ذمہ داری آج تک بخوبی ادا ہو رہی ہے لیکن عمل ندارت مسلمان اگر صرف خطبہ حجۃ الوداع کے سنہری نکات پر غور کر کے عمل شروع کریں تو آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

 پیغمبر اسلام ایک مکمل اور جامع دین لے کر آئے اور ان پر تکمیل بھی کی گئی یہ آخری پیغمبر ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا دعوت اسلام کا جو سلسلہ انہوں نے شروع کیا تھا وہ البتہ قیامت تک جاری رہے گا تقاضہ اس بات کا ہے کہ مسلمان قوم اپنے پیغمبر کو اور ان کے لانے والے مذہب کی تعلیمات پر سچے دل سے عمل کرے اور صحیح معنوں میں ان کی امت یعنی امت محمد بھی کہلانے کا شرف حاصل کریں ۔