طیّبہ علی
عرب کی سرزمین پر570 عیسوی میں ایک ایسا درخشندہ ستارہ چمکتا ہے،جس کی چمک سے کروڑوں لوگ اسلام کے نورسے متعارف ہوئے۔
بی بی آمنہ کےبقول انہیں خود ان کےروشنی کی ایک لکیر آسمان سےزمین تک آتی دکھائی دی۔ بنو قریش کےقبیلے میں عبد المطلب کےپوتے اورچند ماہ قبل وفات پا نے والےعبداللہ کےگھرمیں محمد نےجنم لیا۔
یہی بچہ آ گے چل کے نبوت کےرتبے پر فائز ہوا جسے"صادق اور امین"کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے،جسے دعوت اسلام کی تبلیغ کے لیے اتنی قربانیاں دینی پڑیں کہ جب طائف کی وادی میں داخل ہوئےتومکینوں نے پتھر مارمار کر لہولہان کردیا جبرائیل امین کےذریعے اللہ نے پیغام دیا کہ "اے نبی اگر آپ حکم دیں تو ابھی ان لوگوں کو دونوں پہاڑوں کے درمیان میں دے کر ختم کر ڈالیں" پیغمبر نے فرمایا "اے اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے ان کے دل ایمان کی طرف پھیردے انہیں عذاب مت دےانہیں میری بات سمجھنے کی توفیق دے" یہ ظرف کسی عام انسان کا نہیں ہوسکتا یہ صبرکسی عام آدمی کو نہیں ملا یہ سب کچھ برداشت کرنے والا خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین تھا –
میں اپنے احساسات رقم کرنےکی ہمت نہیں رکھتی کیونکہ لکھنےبیٹھوں توصبح سےشام ہو جائےگی، لیکن قلم نہیں رکےگا۔ وہ جس کی آنے سےعرب کی قسمت کا ستارہ چمکا عرب جس کا زمانے میں کوئی تمدن نہ تھا۔ جنگ وجدل، قتل وخون عورت کے ساتھ ناانصافی غرض ایسی کون سی معاشرتی برائی تھی جو ان میں نہتھی لیکن خدا کوشاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس نےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں مسیحا بھیجا تھا ۔
زمانے نے پوری تاریخ میں ایسی شخصیت نہیں دیکھی جوجنگ میں سالار،مسجد میں امام، مجلس میں استاد اورگھرمیں مددگارغرض زندگی کےہرشعبے میں رہنما کا کردار نبھا رہی ہو۔ باپ کی شکل میں ایک مشفق اور شفیق ہستی ،شوہر کی صورت میں حضرت خدیجہ کا وفادار ساتھی غرض یہ کہ ہر رشتےسےمخلص۔ پھروہ وقت بھی دیکھا جب رات کےاندھیرے میں جان کے دشمنوں سے چھپتے ہوئےابوبکرصدیق کے ساتھ مدینہ ہجرت کی اس وقت علی المرتضیٰ کو اپنے بستر پر سلایا امانتیں ان کے سپرد کیں ، وہ پیغمبر جو امانت کے معاملے میں کھرا صداقت اور دیانت کے معیار پر پورا اترا۔ تاریخ واقعات سے بھری ہوئی ہے لیکن سچ یہی ہے کہ میں نے اپنی تاریخ میں اس سےزیادہ بڑھ کےعظیم ترین رہنما نہیں پایا جس نے زندگی کے ہرشعبے میں رہنمائی کے اصول متعین کیے پہلے خود عمل کیا پھرعمل کی تلقین کی،جس نے عورت ذات پر اس کے حقوق متعین کروا کے اس کی حیثیت الگ کروا کے رہتی دنیا تک احسان کیا جس کا آخری خطبہ حجتہ الوداع تمام انسانوں کے لئےچارٹر ہےجس نے اپنے آخری وقتوں میں بھی"میری امت، میری امت" کی صدائیں دیں، جس نے حالت نزع میں بھی پوچھا "اے اللہ میرے بعد میری امت کے ساتھ کیا کریں گے؟؟ فرمایا "آپ مطمئن رہیں آپ کی امت کے ساتھ خیر کا معاملہ ہوگا" کہا "ہاں اب مجھے اپنے پروردگار کا دیدار کروا دو۔ اب مجھےاللہ سے ملاقات کرنی ہے" جسے آخری وقت تک اپنی امت کی فکر اپنی اولاد سے زیادہ رہی ،جسے اپنے نواسوں کا انجام میدان جنگ میں نظرآ رہا تھا لیکن وہ امت امت پکارتا رہا جس کی سیرت طیبہ کے سنہری پہلو امت مسلمہ کی زندگی سنوارسکتے ہیں، آج وہی امت مسلمہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان سے لاتعلق ہے۔ ہمیں روزانہ شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے اسلام کی روشنی سے نوازا پیدائشی مسلمان بنایا ورنہ آج ہم بھی خالی دل، بے چین روح ، بے لذت مذہب لیے کسی بت کی پوجا کرتے، مندر میں گھنٹے بجاتے، کلیسا میں کھڑے ہوتے یا پھر سلمان فارسی کی طرح حق کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے۔ پیدائشی مسلمان ہونا کسی نعمت سے کم نہیں اور ہمیں اس کا اندازہ نہیں۔