حور تو مستور ہے

شہلا خضر 

ربیع الاول وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللۀ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیۓ پیارے نبی  حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو خاتم الاانبیاء اور

رحمت الالعالمین بنا کر بیجھا _اس مہینے میں خصوصی طور بر سیرت کی مجالس منعقد کی جاتی ہیں  ' آنحضورﷺ کی سیرت المطہرہ پر تقاریر کی جاتی ہیں اور نعتوں کا نزرانۀ عقیدت پیش کیا جاتا ہے _ 
نبیﷺ  کو اللۀ کا رسول اللۀ کا پیغامبر تسلیم کرنا ان پرقلبی  ایمان اور قلبی محبت  'ان کی تعظیم وتوقیر ان کی اطاعت اور اتباع کے بغیر ہمارا ایمان  ہی مکمل نہی ہو سکتا _
اگر ہم محبت رسولﷺ کے دعوے دار ہوں لیکن اطاعت نہی ' فرائض کی ادائیگی نہی اوامر و نواہی کی پرواہ نہی احکام شریعت کا سرے سے کوی لحاظ نہی ' تو یہ طرز عمل سراسر معصیت اور فسق وفجور پر مبنی ہے _
محبت رسولﷺ کے بلند بانگ دعوے ' بڑی وجد آفریں نعتیں اور بڑے لمبے چوڑے سلام بڑے جوش و خروش سے نکالے جلوس ' بڑے اہتمام سے منعقد کی ہوئ میلاد کی محفلیں اور سیرت کی مجالس گر جزبۀ اطاعت سے خالی اور پیروی سنت کے جزبے سے عاری ہوں تو یہ سب فریب نفس ہے اس کا میزان میں کوئ وزن نہی ' بلکہ قابل مواخزہ ہیں _
جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ یوم پیدائش رسول ﷺ کے تعین میں  روایات میں کچھ اختلافات ہیں ، لیکن تاریخ وصال رسول ﷺ پر تمام علماءکا متفقہ اجماع بارہ ربیع الاول پر ہے _آج سے تقریبا" چالیس سال پہلے تک بارہ ربیع الا ول کو بارہ وفات کہا جاتا تھا ' جس کا مطلب ہی بارہ تاریخ کو یوم وفات رسولﷺ ہونے کے ہیں _یعنی وہ دن جس دن تمام صحابہ رضوان علیہ تمام امہات المومنین ' تمام اہل بیعت اور تمام اہل ایمان  کے دل دکھ اور غم سے لبریز ہوے _ جس دن حضرت عمر ًصدمے کے مارے تلوار نکال لیتے ہیں ، جس دن نبیﷺ کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہً کا چہرہ  آنسووں سے تر ہے اور جس دن کو حضرت انسٍ رضی اللۀ مدینے کا تاریک ترین دن قرار دیتے ہیں _

چند سال پہلے تک ربیع الا ول کے احترام میں باوقار محافل نعت خوانی اور نعتیہ مشاعرے  کرواۓ جاتے تھے  _سیرت مطہرہﷺپر گفتگو کے   سنجیدہ اور پاکیزہ مزاکرات منعقد کیۓ جاتے تھے _جن میں علماء اور اہل دانش حضرات  سیرت النبیﷺ کے درخشاں  پہلو اجاگر کرتے اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب و تاکید کرتے ۔
لیکن موجودہ دور میں  دین سے دوری اور خواہشات نفس کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے  ہم شدید قسم کی  گمراہیوں میں  مبتلا ہو چکے ہیں _
أج ہم ایسی قوم بن چکے ہیں جسے کچھ بھی کرتے اور کہتے ہوے نہ تو خوف خدا محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی نبیﷺ کی شفاعت سےمحرومی کا ڈر"_
اغیار کی تقلید میں حد سے گزر جانے والے انسان ۔۔۔۔بلکہ انسان کہلاے جانے کے بھی مستحق نہی _معیشت ' معاشرت سیاست غرض ہر پہلو میں اندھی تقلید تو نظر  آ ہی رہی تھی پر رفتہ رفتہ اس کا غلبہ اب دینی شعائر اور معاملات پر بھی نظر آنے لگا ہے _
نبی ﷺ نے فرمایا 
" جس نے کوی ایسا عمل کیا جو ہم سے ثابت نہی ہوتا ' وہ مردود عمل ہے " 
کامیابی کا راستہ اطاعت رسولﷺ کا راستہ ہے ۔اس کے علاوہ اور کوی بھی راستہ گمراہی کی جانب لے جانے والا ہے ۔دین میں بدعات کسی طور بھی قابل قبول نہی کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم میں لے کر جاۓ گی _
 ایک دفعہ نبیﷺ کے پاس تین صحابی تشریف لاتے ہیں اور آپﷺ کے معمولات زندگی پوچھتے ہیں ۔اس کے بعد ایک نے کہا میں ساری زندگی روزے رکھوں گا کبھی افطار نہی کروں گا نے دوسرے نے کہا میں ساری زندگی شادی نہ کروں گا ' تیسرے نے کہا میں ساری رات قیام کرتا رہوں گا _ آپ ﷺ نے ان سے کہا
" میں اللۀ سے  تم سب زیادہ سے ڈرنے والا ہوں ' میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ' قیام بھی کرتا ہوں اور سوتأ بھی ہوں اور بیویوں کا حق بھی ادا کرتا ہوں _جس نےمیری سنت کو چھوڑا اور منہ موڑا وہ مجھ سے نہی _ میرا اس سے کوئ تعلق نہی " 
 یہی صورت حال آج ہمیں اپنے معاشرے میں دکھای دے رہی ہے _ 
محبت رسولﷺ کے اظہار کے لیۓ نت نے طریقے نکالے جا رہے ہیں  ' جن کا سیرت مطہرہ ﷺ کی اتباع سے دور دورکا واسطہ نہی _ بیت اللۀ اور روضۀ رسولﷺ کا ماڈل بنا کرگلی گلی ناچ گانا گایا جا رہا ہے _ کیک پر نبی ﷺ کا نام اور نعلین مبارک کی شبیہ بنا کر اس پر چھریا ں چلائ جا رہی ہیں _
یہ کیسی محبت کا دعویٰ ہے کہ پیارے نبی ﷺ جس موسیقی کی آواز سن کر کانوں کو اپنی مبارک انگلیوں سے  بند کر دیا کرتے اور فرماتے  کہ میں موسیقی کے  آلات کو توڑے جانے کے لیۓ بیجھا گیا ہوں ' آج انہی آلات کی بے ہودہ دھنوں  کی تھاپ پربے ہنگم  رقص کیا جا رہا ہے _مسجد میں آزان کی صدائیں سن کر بھی ان محبت کے دعویداروں میں سے کسی کو اس رقص و موسیقی کو روک کر نماز کی ادائیگی کا احساس   تک  نہی ہوتا  _ پیارے نبیﷺ نے اول یوم بعثت سے لے کر اپنی حیات کے آخری سانس تک نماز ادا کی ' اور  ترک نماز کرنے والے  کو دین سے خارج قرار دیا " 
 ایمان کا وصف ' حیا 'ہے ' جسے نبیﷺ ایمان کا لازمی جزو قرار دیا اور فرمایا 
" جب تم میں حیا نہی تو جو چاہے کرو "یعنی بے حیا سے بےزاری اور برائت کا اظہار فرمایا _ اسی طرح ایک اور موقع پر آپﷺ نے فرمایا
" حیا جنت میں لے جاتی ہے اور بے حیائ کوڑا کرکٹ ہے اور کوڑا کرکٹ آگ میں لے جاتا ہے ,"
رواں  سال ان تمام خرافات کے علاوہ ایک انتہائ شرمناک اور قابل مزمت حرکت ملتان کے چند "عقیدت مندوں "نےاور  کی ہے _ایک نو جوان لڑکی کو عیسائ دلہن کے سفید لباس پہنا کر بنا سوار کر ماڈل کی طرح بٹھا دیا جو  چاروں جانب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی رہی ہے  _ اور اس کے  قریب مسجد نبوی کا ماڈل رکھ دیا .   اور اس بے حجاب لڑکی کو   " حور " کا نام دے دیا _ 

ہم بحیثیت مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ دنیاوی زندگی میں کیۓ گۓ  نیک اعمال کے نتیجے میں ہی جنت کا حصول ممکن ہے _ اللۀ سبحان و تعالی نے جنت میں بے شمار نا قابل تصور انعامات و اعزازات   سے نوازنے کا زکر کیا ہے _ دنیا کی تکالیف اور مشکلاپ صبر وشکر سے گزارنے والے  مومن مردوں کی   رفاقت کے لیۓ اللۀ تعالئ نے  خصوصی طور پر جنت کی حور دینے کا وعدہ کیا ہے _
قرأن پاک میں اللۀ تعالیٰ نے ان حوروں کی سب سے خاص خوبی جھکی نظروں والی شرمیلی اور باحیا کہا ہے 
"  اہل جنت کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوۓ موتی '(الواقعہ)
 حوریں جو خیموں میں تہرائ گئ ہوں گی '(الرحمنّ)
 جنت میں اپنے شوہروں کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نظر نہ اٹھانے والی حوریں ہوں گی " ۔۔۔۔(صٓ۔)
ان تمام قرآنی آیات میں اللۀ سبحان و تعالی اہل جنت کے لیے جس حور کے بارے میں بتا رہے ہیں اسے  خیموں میں مستور اور حیادار ' جھکی نظروں والی کے نام سے مخاطب فرما رہے ہیں_ کیا اللۀ کریم کے انعامات کاحلیہ بگاڑ کر نمائش کی شے بنا کر ہم اپنے رحمان و رحیم رب  کی جود و سخا  کی سنگین توہین نہی کر رہے ؟؟؟؟؟ 
افسوس صد افسوس آج اپنی جہالت کے سبب ہم ایسی حرکات کر رہے ہیں جو ہمیں محب رسولﷺ کے بجاے  گستاخ رسول ﷺ بنا رہی ہیں 'ہر گزرتے سال ان خرافات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے _ اقتدار اعلٰی پر بیٹھے افراد اپنی کرسی بچانے کی فکروں میں گم ہیں _ ریاست مدینہ کے دعوے کرتے کرتے زبان نہی تھکتی اور ملک میں اسلامی شعائر کی سنگین بے حرمتی ہو رہی ہے پر انہیں کچھ دکھائ نہی دے رہا _ 
 ہر سال پیارے نبیﷺ  سے محبت کے نام پر جو طوفان بد تہزیبی اور بے حیائ اٹھایا جاتا ہے وہ کسی طور برداشت نہی کیا جاے گاحکومتی ایوانوں کی خاموشی ہی ان کو مجرم ثابت کرتی ہے _ ربیع الاول کی تقریبات   احکام شریعت اور بر خلاف اور  نبیﷺ کی شان کریم کے منافی منانے والوں کو کڑی سزا دی جانی چاہیۓ اس کے ساتھ ساتھ ملتان میں نۓ فتنے کا آغاز کرنے والی لڑکی اور اس کے ساتھیوں کے خلاف فوری ایکشن لیا جاے تاکہ آئندہ کوئ بھی نبیﷺ کے نام پر   اس  نوعیت کی اخلاقی تنزلی کے مظاہرے کی جرائت نہ کر پاۓ _