کتابوں کا باغ

ثروت اقبال

عبدالاحدکو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اتنی ساری کتابیں اس کی آنکھوں کےسامنےتھیں درختوں پر رنگ برنگی کتابیں لٹک رہی تھیں کوئی بہت بڑا درخت تھا

تو کوئی چھوٹا مگر سب کتابوں سے بھرے ہوئے تھے وہ پورے باغ میں گھوم پھر رہا تھا کیوں کہ وہ اپنی من پسند جگہ پر تھا وہ سوچ رہا تھا کہ کتابوں کا باغ بھی ہو سکتا ہے مجھے کبھی کسی نے بتایا ہی نہیں !اب تو میں یہاں سے ساری کتابیں پڑھ کر ہی جاؤں گا عبدالاحد نے جیسے ہی درخت پر لٹکتی ہوئی ایک کتاب لینی چاہی کتاب نے اسےخوش آمدید کہا اور جھٹ سے عبدالاحد کے ہاتھوں میں آگئی یہ نظموں کی کتاب تھی اور نظمیں تو اسے بہت اچھی لگتی تھی وہ لہک لہک کر نظمیں پڑھنے لگا باغ کی کتابیں بھی ان نظموں سے لطف اندوز ھو رھی تھیں اور دوسری کتابیں بھی چاہ رہی تھیں کہ عبدالاحد انہیں بھی پڑھے ۔

اس نے سوچا کہ جب وہ یہاں سے جائے گا تو بہت ساری کتابیں اپنے ساتھ لے کر جائے گا، اس نے اپنی پیاری سی بہن ایمان کے لیے ایک درخت سے کہانی کی کتاب لی جس کا نام تھا “پھول پری “ایسا لگ رہا تھا کہ پھول پری ابھی کتاب سے نکل کر باہر آ جائے گی وہ آگے بڑھا تو اسے اور بہت سی اچھی اچھی کتابیں نظر آئیں اس نے اپنے سب گھر والوں کے لیے اور دوستوں کے لیے بھی کتابیں لے لیں وہ سب کتابیں جمع کرکےجیسے ہی مڑا تو اس نے دیکھا کہ درخت پر ایک کتاب زور زور سے ہل رہی ہے اسے ایسا لگا کہ یہ کتاب اسے اپنی طرف بلا رہی ہے عبدالاحد نے قریب جا کر دیکھا تو کتاب پر لکھا تھا “بزرگوں کے لیے صحت کے اصول”اس نے آگے ہاتھ بڑھایا ہی تھا تو کتاب جلدی سے اس کے ہاتھوں میں آگئی وہ بہت خوش تھی کہ پڑھنے کے لئے اسے بھی چنا گیا کتاب نے عبدالاحد سے کہا کہ میں تمہاری دادی کے لئے بہت فائدے مند رہوں گی، اس سے پہلے کہ وہ کتاب کو کوئی جواب دیتا اسے شورشرابہ کی آوازیں سنائی دینے لگیں یہ تو علی ماموں اور ان کے بچوں کی آوازیں تھیں اور عبدالاحد آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا اس کی جمع کی ہوئی کتابیں اس کے ہاتھوں میں نہیں تھیں اس نے اپنے خالی ہاتھ دیکھے اور کہا میری کتابیں کہاں گئیں؟ اتنے میں اس کا ماموں زاد بھائی زید اس کے سامنے تھا وہ لوگ لاہور سے آئے تھے اس نے عبدالاحد سے کہا ،ارے ہاں بھئی میں تمہارے لئے بہت ساری کتابیں لے کر آیا ہوں اور وہ ساری کتابیں زید نے عبدالاحد کے ہاتھوں میں تھما دیں ۔

عبدالاحد نے زید کو کتابوں کے باغ کے بارے میں بتایا لیکن عبدالاحد حیرت زدہ رہ گیا جب زید نے کہا کہ وہ تو اکثر کتابوں کے باغ میں جاتا رہتا ہے کیوں کہ جب اسے کوئی کتاب پڑھنی ہوتی ہے تو گھر سے قریب ہی لائبریری ہے وہاں وہ اپنے ابو کے ساتھ جاتا ہے اس لائبریری کا نام “کتابوں کا باغ ” ہے۔