باددشاہ گر

ماہم احسن

امی اویس کو ہوم ورک کروارہی تھیں۔  اویس کام کےساتھ ساتھ امی کواسکول کے قصے بھی سنا رہا تھا۔

امی ! مس چھل چھبیلی کی کلاس میں ہم نے ان کا خوب مزاق اڑایا ۔ بہت مزا آیا ۔ امی ہمیں ۔۔۔ "

”  کیا ؟ کیا کہا تم نے؟؟ یہ چھل چھبیلی کس کو کہا تم نے؟ " امی تعجب سے بات کاٹتے ہوئے بولیں۔

”  امی وہ ہماری اردو کی ٹیچر ہیں نا ان کا" اویس لا پرواہی سے بولا۔

تم اپنی مس کو یہ کہتے ہو؟“  امی حیران اور پرشان ہو گئیں۔

” ہاں ناں ! سب بچے کہتے ہیں، صرف میں تھوڑی کہتا ہوں۔"

” لیکن یہ چھل چھبیلی ہی کیوں؟“

” پتہ نہیں امی، سب بچے یوں ہی کہتے ہیں۔“

” اف !“ امی کے منہ سے افسوس کے مارے نکلا۔

” سب کی دیکھا دیکھی تم نے بھی کہنا شروع کردیا ؟"

امی کو سخت افسوس تھا کہ ان کا بیٹا  استاد کے مقام سے واقف نہیں ہے۔ انھیں خیال آیا کہ اس میں ان کی بھی کوتاہی شامل ہے کہ انھوں نے  اسے استاد کا ادب کرنا نہہں سکھایا۔

رات کو جب امی نے اویس کو سونے کے لئے لٹایا تو اس نے حسبِ عادت کہانی کی فرمائش کی۔ 

امی نے کہا۔ " آج میں تمہیں ایک سچا واقعہ سناتی ہوں۔ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید مسجد سےنماز پڑھ کر نکلے اور جوتے پہننے لگے تو دیکھا  ان کے بیٹے اپنے استاد کے جوتے سیدھے کرنے کے لئے آپس میں الجھ رہے ہیں۔ ہر ایک کی کوشش ہے کہ وہ جوتے اپنے استاد کو پیش کرے۔ ہارون الرشید بچوں کا استاد کے لئے انتہائی احترام دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔صبح دربار پہنچا تو اس نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ " اس سلطنت میں سب سے اعلیٰ درجے پر کون ہے؟" سب نے کہا " آپ !" ۔ ہارون الرشید کہنے لگے نہیں ! مجھ سے بڑی شخصیت وہ ہےجس کے جوتے بادشاہ کے بیٹے سیدھے  کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔"

ابو بھی قریب بیٹھے قصہ سن رہے تھے۔انھوں نے کہا "مجھے بھی استاد کےاحترام میں ایک واقعہ بہت متاثر کرتا ہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے ۔ جب انھیں حکومت کی طرف سے"  سر " کا خطاب ملا تو انھوں نے کہا " پہلے میرے استاد کوخطاب دو،ورنہ میں خطاب وصول نہیں کروں گا ۔ "

جیوری نے کہا ”آپ تو اتنے بڑے لکھاری، شاعراور فلسفی ہیں،آپ کےاستاد کی تصنیف کیا ہے؟

علامہ اقبال نے اپنی طرف اشارہ کیا اور فخر سے کہا ” یہ تصنیف میرے استاد کی ہے!!! "

جیوری نے آپ کے استاد  مولوی میر حسن کوشمس العلماء کاخطاب دیا، پھر علامہ اقبال نے اپنا خطاب وصول کیا۔

دیکھا بیٹا ! " امی نے کہا " بڑے لوگوں نےکس طرح اپنےاسا تذہ کا احترام کر کے دنیا میں عزت و شہرت پائی۔ "

ابو بولے" استاد کی فضیلت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ سرکار کائنات صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا :۔۔۔ "میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔"

" بہت بہت شکریہ ! امی اورابو میں اب اپنے اساتذہ کااحترام کروں گا اوراپنے دوستوں کو بھی سمجھاؤں گا کہ استاد کا احترام کرنا بہت ضروری ہے!!! "اویس نے مسکرا کر کہا ۔

کسی کا قول مشہور ہے : "استاد بادشاہ نہیں ہوتا مگر بادشاہ گر ہوتا ہے"۔