کہنا بڑوں کا مانو

خدیجہ توقیر

میری ایک بہت پکی سہیلی ہے جس کےساتھ میں اپنےاسکول کا کام کرتی ہوں اورشام کو کھیلتی بھی ہوں۔ ایک دن

شام کو میں اپنی سہیلی کے ساتھ قریب ہی کی دکان سےکچھ سامان لینےگئی جو امّی نےمنگوایا تھاوہاں ایک گاڑی آئی۔ گاڑی میں سےدو آدمی نکلےان میں سےایک آدمی نے میری سہیلی کوچاکلیٹ دی اورکہنےلگا کھا لوبیٹی۔

میں نے اپنی سہیلی سے کہا نہیں کھانا۔چلو گھرچلتے ہیں۔کسی سےکوئی چیزلے کرنہیں کھانی چاہیےلیکن وہ آدمی کہنے لگا۔ بیٹی میں اجنبی نہیں ہوں۔ میں آپ کے بابا کا دوست ہوں۔  یہاں سے گزر رہا تھا۔ آؤ میں تم دونوں کو گھر چھوڑ دوں۔

مجھےامی کی بات یاد آئی جوایک دفعہ سمجھائی تھی کہ کسی بھی انجان شخص پربھروسہ مت کرنا میں نے اپنی سہیلی کا ہاتھ پکڑا اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی گھرآکرآدمی کو سب بات بتا دی۔

امی نےشاباشی دی اور میری سہیلی کوبھی سمجھایاکہ کسی بھی انجان آدمی سے کبھی کچھ لےکرنہیں کھانا چاہیے۔ وہ لوگ اغوا کرنے والےہوتے ہیں اور بچوں،بچیوں کے ہاتھ پیرتوڑکران سےبھیک منگواتے ہیں۔ امی کی سمجھائی ہوئی بات پر عمل کرنےسے آج ہم ایک بڑی مصیبت سےبچ گئے۔