ماہم احسن
ولیم گلاسکو کا رہائشی تھا۔
ولیم کو سائیکلنگ کا بہت شوق تھا۔
اس کےپاس جب بھی وقت ہوتا یا کوئی بھی چھٹی کا دن آتا وہ سائکلنگ شروع کر دیتا ہوں وہ چھٹی کا دن تھا موسم بہت خوشگوار تھا ولیم نے اپنی سائیکل نکالی مگر یہ کیا؟
اف! میری سائیکل کیسے خراب ہوسکتی ہے۔ " وہ بڑبڑا یا "مجھے اچھی طرح یاد ہےآخری دفعہ میں جب سائیکل کر کے واپس آیا تھا تو میری سائیکل بالکل ٹھیک تھی پھر میں نے اپنی سائیکل گیراج میں رکھ دی تھی اور اب پانچ دن بعد سائیکل نکالی تو وہ خراب ہو گئی۔ آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا ۔
ولیم نے سائیکل کا معائنہ شروع کیا کہ کیسے وہ اسے خود ہی کر سکتا ہے ولیم کو سائیکل کا تھوڑا بہت کام آتا تھا اس لیے اس نے سائیکل کو خود ٹھیک کرنے کا سوچا سب سے پہلےاس نے سائیکل کےپنکچر کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر یہ کیا سائیکل صرف پنکچر نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کی گھنٹی بھی بری طرح ٹوٹ چکی تھی۔" لگتا ہےکہ سائیکل کو کسی اورنے بھی استعمال کیا ہے." ولیم بڑبڑایا۔ " مگر کون؟؟ کون کر سکتا ہے یہ حرکت؟ ". ویلیم سوچنے لگااور پھر اس کی جاسوسی رگ پھڑک اٹھی ۔ سب سے پہلے وہ سائیکل کو ٹھیک کروانےلے گیا ۔ سائیکل مرمت کرنے والے انکل اس کے جاننے والے تھے وہ کئی بار ان سے سائیکل مرمت کروا چکا تھا۔
“ ارے ولیم یہ کیا ہو گیا تمہاری سائیکل کو یہ تو کبھی بری طرح خراب نہیں ہوئی۔ “انکل سائیکل کا معائنہ کرتے ہوئے حیرت سے بولے۔“ پتہ نہیں انکل میں بھی بہت حیران ہوں آخری مرتبہ میری سائیکل بلکل ٹھیک تھی۔ لگتا ہے کہ کسی اور نے میری سائیکل استعمال کی ہے۔” ولیم کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ پھر سائیکل انکل کے حوالے کر کے وہ گھر پہنچا۔
سب سے پہلے اس نے گیراج کا جائزہ لیا اس کے گیراج میں ایک کھڑکی اور ایک دروازہ تھا۔ ولیم نے غور کیا تو اس کو گیراج میں کچھ قدموں کے نشان نظر آئے اور کھڑکی بھی خلاف معمول کھلی ہوئی تھی۔ ولیم اس کو ہمیشہ بند رکھتا تھا کیونکہ یہ کھڑکی گلی میں کھلتی تھی۔ قدموں کے نشان وہاں تک تھے جہاں پر اس کی سائیکل کھڑی ہوتی تھی۔“اس کا مطلب ہے کہ کوئی تو ہے جو میری سائیکل کو چوری چھپے چلاتا ہے۔” ولیم کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑایا۔ ولیم اس کھڑکی سے کودا اور ان نشانوں کا تعاقب کرنےلگا۔بارش ہونےکی وجہ سے نشانات بالکل واضح تھے وہ نشانات اس کے پڑوسی کے گھر کی طرف جا رہے تھے۔
ارے یہ نشانات توزین کے گھرکی طرف”جا رہےہیں.” ولیم نےحیرت سےسوچا.”اس کامطلب ہے کہ چور زین ہی ہے.” ولیم وہاں کچھ دیر تک کھڑا رہا پھراچانک اس کے ذہن میں ایک زبردست آئیڈیا آیا ۔وہ واپس اپنےگھر کی طرف چلا گیا۔
ایک دن بعد اس کی سائیکل بلکل ٹھیک طریقے سے مرمت ہو چکی تھی اس نے سائیکل کو اچھی طرح چمکایا اور اسے کھڑکی کے پاس رکھ دیا اور چور کا انتظار کرنے لگا ۔کھڑکیاں اس نے خلاف معمول کھلی چھوڑ دی تھیں ۔رات کو چور آیا ۔ بلب کی ہلکی ہلکی روشنی میں ولیم نے جیسے ہی چور کاچہرہ دیکھا تو وہ حیران رہ گیا چورنے سائیکل اٹھائی اوراسے کھڑکی سے باہر گیا ولیم چپ چاپ چور کاپیچھا کرنے لگا۔
چور تھوڑی دیر گلی میں سائیکل چلاتا رہاسائیکل چلاتے ہوئےوہ بار بار گررہا تھا جس سے اس کا اناڑی پن ظاہر ہوتا تھا۔سائیکل دوبارہ کئی جگہ سے ٹوٹ گئی تھی ۔ آخر چور تھک گیا، وہ واپس گھر کی طرف گیا تاکہ سائیکل کو واپس گیراج میں رکھ دے لیکن جیسے ہی وہ کھڑکی کے پاس پہنچا۔اس نے ولیم کو غصے میں کھڑکی کے پاس کھڑا پایا۔ وہ زین کے گھر میں کام کرنے والا چھوٹا سا لڑکا تھا۔
“ مجھے معاف کر دیں مجھے سائیکل چلانے کا بہت شوق ہے مجھےآپ کی سائیکل بہت اچھی لگتی ہے اس لئے میں اکثر آپ کی سائیکل چوری چھپے چلاتا ہوں۔ چھوٹا لڑکا ندامت اور شرمندگی کی ملی جلی کیفیت میں بولا۔ ولیم چونکہ رحم دل تھا تو اس نے لڑکے کو معاف کر دیا۔
“ میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔ لیکن تمہارے لئے ایک آفر ہے اگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ آئندہ کسی کی چیز چوری چھپے استعمال نہیں کرو گے تو میں تمہیں کبھی کبھی اپنی سائیکل چلانے کے لئے دے سکتا ہوں۔ “
“ آپ کا بہت بہت شکریہ. “ چھوٹا لڑکا خوشی سے بولا اور بھاگتا ہوا چلا گیا۔