آسیہ محمد عثمان
شازی ۔۔۔شازی ۔۔۔جلدی کرو بیٹا تمہارے بابا آتے ہی ہوں گے شازی نے جلدی جلدی امّی کے ساتھ کام میں مدد کی اور ہاتھ منہ دھو کر آمنہ کے ساتھ کھیلنے
چلی گٸ۔
شازی اور آمنہ پکی سہیلیاں تھیں۔ آج آمنہ کی گڑیا کی شادی تھی شازی بھی گلابی جوڑا پہن کر شادی میں شامل ہوگٸ۔۔۔
شازی نے پہلے سارے مہمان سہیلیوں کو سلام کیا پھر آمنہ کے پاس بیٹھ گٸ۔
شازی نے آمنہ سے پوچھا۔۔ شادی کب شروع ہوگی اور گڈا کہاں ہے؟
آمنہ نے فوم کی ایک گدی ہٹائی اور کہا یہ رہے گڈے اور گڈے کے دوست۔ وہ کیا ہے ناں! ۔۔ ہماری گڑیا پردہ کرتی ہے اور ہم بھی!! اس لیے ہم نے پردے کا انتظام کیا ہے۔۔
فوم کی گدی کے اُس طرف تین چار گڈے چھوٹے چھوٹے شلوار قمیض پہنے دیوار کے سہارے سے کھڑے تھے۔۔ ماچس کے ڈبے پر کپڑا بچھا کر گڈے کو بیٹھایا ہوا تھا۔۔۔
دلہن یعنی گڑیا... لال ستاروں والا شرارہ پہن کر کھڑی تھی ۔۔
شازی نے کہا اچھا اگر ایسی بات ہے تو گڑیا کو بھی گھونگھٹ کرواٶ ہماری خالہ کی شادی ہوئی تھی تو وہ پورے حجاب میں تھیں۔۔
آمنہ نے جلدی سے گڑیا کو گھونگھٹ کرادیا۔۔
اب ساری سہیلیاں مل کر گانے گانے لگیں۔
گڑیا ہماری چاند تارا نہ جانے گڈا کیسا ہوگا؟
گڈا ہمارا بے روزگار ییچارہ نہ جانے کام کیسے کرے گا؟
ارے ایسے نہیں ہے شازی نے گانے کے بول درست کیے۔۔ گڈا ہمارا آنکھوں کا تارا نہ جانے گڑیا کیسی ملے گی؟
آمنہ نے گڑیا کو پیلا جوڑا پہنایا۔ پھر گڑیا کو ابٹن لگا کر مایوں کی رسم کی۔۔
آمنہ نے شازی کو دیکھا!! تم میری پکی سہلی ہو اس لیے کل تم مہندی کی رسم کر لینا میں نے آج مایوں کی رسم کی ہے۔
شازی یہ سب دیکھ کر بڑوں کی طرح ہنسنےلگی بہن ایک طرف گڑیا کو پردہ کرارہی ہو اور دوسری طرف ساری ہندوؤں کی رسمیں کررہی ہو۔۔۔
ہماری خالہ کی تو کوئی مہندی مایوں نہیں ہوئی تھی ان کا تو بس نکاح ہوا تھا اور رخصتی۔۔
میری امّی کہتی ہیں جو جس کی نقل کرے گا قیامت کے دن اسی کا دوست بن کر اٹھے گا۔
اور میں تو مسلمان ہوں میں تمہاری گڑیا کی شادی میں نہیں آٶں گی۔۔
آمنہ کوبھی غصہ آگیا!۔۔۔
یہ تو کوٸ بات نہیں ہوٸ اب تمہاری خالہ کی کوئی رسم نہیں ہوئی تو میں کیا کروں۔۔ میں تو سب کروں گی تمھیں نہیں آنا تو مت آٶ۔۔ اور یہ لو اپنا تحفہ بھی لے جاٶ نہیں چھاٸیے ہمیں تمھارا موتیوں والا ہار۔۔
شازی اور آمنہ کی دوستی ٹوٹ گٸ ویسے تو اکثر ہی شازی کی لڑاٸ ہوجاتی تھی مگر آج دونوں نے ہی دوستی توڑنے کا پکا ارادہ کرلیا۔۔
اگلے دن گلی میں شور کی آوزیں آنے لگی۔ شازی نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو گڈے کی بارات گڑیا یعنی آمنہ کے گھر جارہی تھی۔۔
شازی کو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ آمنہ نے دوبارہ دوستی نہیں کی۔۔
تب ہی شازی کی امّی نے کہا! شازی تم بھی چلی جاٶ شادی میں ایسے ناراض نہیں ہوتے اور تم چھوڑ دوگی ۔ اپنی سہیلی کو تو پھر آمنہ کو اچھی باتیں کون بتاۓ گا؟
ابھی شازی کو امّی سمجھا ہی رہی تھیں کےآمنہ نے دروازے پر دستک دی ۔۔
خالہ دروازہ کھولیں شازی کو بھیج دیں جلدی ایک مسٸلہ ہوگیا ہے۔
آمنہ کی آواز پرشازی نے بیڈ سے چھلانگ لگا دی۔۔
کیا ہوا؟ شازی نے پریشان ہوکر پوچھا!.. آمنہ سب ٹھیک تو ہے؟
آمنہ نے جلدی جلدی سارا قصہ سنایا۔۔ وہ وہ میری گڑیا ناں کل سے مل نہیں رہی تھی بہت ڈھونڈنے کے بعد الماری کےنیچے سے ملی ہے۔۔ شازی نے جھٹ سے کہا شکر ہے مل گٸ مگر پھر مسٸلہ کیا ہے؟ آمنہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا۔ ایک پیر نہیں مل رہا وہ لگتا ہے الماری کے نیچے ہی رہے گیا۔میں نے بہت تلاش کیا مگر نہیں ملا اب سب مذاق بنا رہے ہیں میری گڑیا کا۔۔ یہ کہے کر آمنہ رونے لگی۔۔
شازی نے دوستی نبھاتے ہوئے آمنہ کا ہاتھ پکڑا اور شازی کے گھر جا کر سب کو خاموش کروادیا۔۔
ہنسنا بند کرو سب اور یہ کیا پیر ٹوٹنے کا مذاق بنا لیا ہے کسی کی کمی کا ایسے مذاق نہیں بناتے۔۔جن بچوں کو نکاح میں نہیں آنا وہ نہ آٸیں اور دانیہ بہن گڈا تمہارا ہے تم بتاٶ شادی کروگی؟۔
دانیہ نے کہا ہاں میں کروں گی مگر ایک بات بتادوں۔۔ میں پہلے بتانے میں شرما رہی تھی۔۔ میرے گڈے کی آنکہیں مٹ چکی ہیں وہ میں نے صبح سرف کے پانی میں بھگو دیا تھا ناں! اسی لیۓ میں نے گڈے کو سہرا پہنایا ہے۔۔
چاہو تو سہرا ہٹا کر دیکھ لو۔۔ دانیہ کی اس بات پر شازی آمنہ اور باقی سارے بچے ہنسنے لگے۔
شازی نے کہا دیکھا ہر کسی میں کوئی نہ کوئی کمی ہوتی ہے اس لیے کسی کا مذاق نہیں بنانا چاہیے۔۔چلو اب ہم سب مل کر گڑیا اور گڈے کی شادی کریں۔
قاضی صاحب کالے مارکر سے داڑھی بنائے حساب کی پرانی کاپی لیے گڑیا سے پوچھنے لگے۔۔۔
گڑیا رانی تم ہو پیاری بتاٶ حق مہر میں ایک پیکٹ بسکٹ کےگڈےراجاقبول ہیں۔آمنہ نے گڑیا کا سر تین بار ہاں میں ہلایا۔۔
بس پھر سب نے ایک دوسرے کو مبارک دی۔۔ مبارک ہو گڑیا کی شادی ہوگٸ۔۔۔ مبارک ہو گڑیا کی شادی ہوگٸ۔۔