ایک کہانی بڑی امی کی زبانی

عالیہ رؤف /سیالکوٹ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سوداگر ٹوپیوں کا کاروبارکیا کرتا تھا پرانے وقتوں کی بات ہے لوگ پیدل ہی سفر طے کیا کرتے تھے۔ سوداگر بھی پیدل سفر طے کرتا

جا رہا تھا گرمی کا موسم تھا اورسوداگر اب کافی تھک چکا تھا ایک گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ کسی درخت کے سائے کے نیچے آرام کرلے اور پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو ۔چلتے چلتے اسے ایک بہت گھنا پیڑ نظر آیاتو اس نے  فیصلہ کیا کہ وہ اس درخت سائے تلے کچھ دیر آرام کر لے ۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی ٹوپیوں کی گٹھڑی کو تکیے کی طرح سر کے نیچے رکھ دیا اوراس پرسررکھتےہی گہری نیند سو گیا کافی دیر بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ٹوپیوں کی گھٹڑی اس کےسر کے نیچے موجود نہیں تھی۔ اس بات سے وہ شدید پریشان ہو گیا اور ادھر ادھر اپنی گٹھڑی کو تلاش کرنے لگا کہ اچانک اس کی نظر درخت کے اوپر پڑی وہ دیکھتا ہے کہ درخت پر بے شماربندر بیھٹے ہیں اور انہوں نے اس سوداگر کی ٹوپیاں سروں پر پہن رکھی ہیں۔  سوداگر بہت پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ اب یہ ان درخت پر بیٹھے بندروں سے اپنے ٹوپیاں کیسے واپس لےگا ایسے ہی سوچتے ہوئے کبھی وہ اپنا ہاتھ سر پر رکھے اور کبھی پیشانی  پر جب وہ ایسا کر رہا تھا تو اس نے دیکھا بندر بھی اس کی نقل کر رہے تھے۔ ایسے ہی اس کے ذہن میں ایک منصوبہ آیا تو وہ اپنا سر کھجانے لگا تو بندر بھی اس کی نقل کرنے لگے دو تین اوراسی طرح کی حرکات کر کے جب مسلسل بندر نقل کررہے تھے تو سوداگر نے ایک دم اپنے سر پر پہنی ٹوپی اتارکر زمین پر پھینک دی سوداگر کی یہ حرکت دیکھ کر سب بندروں نے بھی اپنی اپنی ٹوپی زمین پر پھینکی    جونہی ٹوپیاں زمین پر گریں سوداگر نے جلدی سے تمام ٹوپیاں اکٹھی کیں اور اپنی گھٹری میں باندھ کر وہاں سے بھاگ گیا۔

اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملا کہ انسان اگر چاہے تو دماغ استعمال کر کے ہر مشکل سے نکل سکتا ہے!کیونکہ اللہ نے انسان کو تمام مخلوقات پر برتری اس لیے دی کہ اسے علم وشعورعطا کیا گیا ہے جو کہ دوسری کسی مخلوق کو نہیں اور اس کے لیے ہمیں ہمیشہ اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے تو آیئےابھی سب مل کر کہیں الحمدللہ۔