احساس

 عنیزہ عزیر

ارحم! آجاؤ کیفے چلیں ہم بھی ادھرہی جا رہے ہیں۔ ابھی اگلے لیکچر میں کافی ٹائم ہے۔

عریش ، جو حمزہ اور  احد کے ساتھ کیفے جا رہا تھا، ارحم کو بینچ پر اکیلا پر بیٹھا دیکھ کر اس سے بولا۔

نہیں یار، تم لوگ چلے جاؤ. میرا دل نہیں کر رہا۔ ارحم نے جواب دیا تو وہ تینوں آگے بڑھ گئے۔

 

 کیفے سےواپسی پر تینوں نے ارحم کو اسی طرح گم سم بیٹھا دیکھا۔

میں کافی دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں ارحم کچھ چپ چپ سا ہے۔ اور کافی دنوں سے کیفے بھی نہیں جا رہا۔

اس کو دیکھ کر احد بولا۔

ہممم چلو پھر ارحم کے پاس چلتے ہین اس سے ہی پوچھ لیتے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔  عریش بولا۔

ارحم! کیا ہوا ہے؟

تم اتنے بجھے بجھے کیوں ہو؟ احد نے بات کا آغاز کیا۔

کچھ نہیں یار بس ایسے ہی.. ارحم نے کہا۔

ایسے تو نہیں۔ تم پہلے تو کبھی ایسے اکیلے نہیں بیٹھے۔جب لیکچر نہیں ہوتا تب بھی یا تم کیفے میں ہوتے تھے یا کلاس روم میں اب کچھ دن سے الگ تھلگ رہنے لگے ہو۔

حمزہ نے اسکے ساتھ بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

عریش اور احد ان دونوں کے پاس نیچے گھاس پر بیٹھ گئے اور ارحم سے استفسار کرنے لگے۔

بس یار! مین پشیمان ہوں۔اتنا وقت غفلت میں گزار دیا ہے۔ہم اپنی زندگی تو اتنے اچھے سے گزار لیتے ہیں لیکن دوسروں کا احساس نہیں کرتے۔

ارحم کی آواز کافی مدھم تھی۔

دیکھو ارحم! صحیح صحیح بتاؤ کہ کوئی مسئلہ ہے؟

کوئی پریشانی ہے؟ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔

کوئی مسئلہ ہے تو ہم مل کر حل کریں گے۔تم اصل بات تو بتاؤ۔

عریش نے ارحم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

ارحم نے ان تینوں کو ایک نظر دیکھا اور پھر گویا ہوا

اگر تم تینوں اتنا اصرار کر رہے ہو تو پھر تمہیں بتاتا ہوں کہ میں اداس کیوں ہوں؟ در حقیقت میں اداس ہونے سے زیادہ پشیمان ہوں۔

کچھ دن پہلے رات کو میری آنکھ کھلی،میں پانی پینے کیلئے کچن کی طرف بڑھا کہ مجھے احساس ہوا کہ دادا ابو کے کمرے سے آواز آ رہی ہے۔

میں اس غرض سے ان کے کمرے کی طرف بڑھا کہ انکو کچھ چاہیے ہو اور وہ کسی کو بلا نہ رہے ہوں۔ لیکن جب میں انکے کمرے مین پہنچا تو دیکھا کہ وہ جائے نماز بچھائے، ہاتھ اٹھائے، زار و قطار روتے ہوئے دعا مانگ رہے ہیں۔

مین بہت حیران ہوا کہ ان کو کیا پریشانی ہےکہ اس وقت بجائے آرام کرنے کے وہ روتے ہوئے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ان کو بھی احساس ہو گیا کہ کمرے میں کوئی آیا ہے اسلئے وہ دعا مانگ کر میری طرف متوجہ ہوئے۔ اورجب میں نے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو مجھے بتانے لگے کہ ہم آج اپنے گھر میں خوش ہیں، پیٹ بھر کر روٹی کھاتے ہیں اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں لیکن کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔

وہ لوگ دن بھر محنت کرتے ہیں لیکن پھر بھی اتنی مزدوری نہیں ملتی کہ ایک وقت کا کھانا پیٹ بھر کر اپنے گھر والوں کو کھلا سکیں۔

بیٹا دکھ اس بات کا ہے کہ جب ہمارے باپ دادانے یہ وطن حاصل کیا تھا تو اسکا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ہم سب مل جل کر رہیں گے. ایک دوسرے کا احساس کریں گے۔ انہوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ اپنے گھر، جائیداد سب کچھ چھوڑ کر وہ ادھر آئے تاکپ ہم ایسے ملک میں زندگی گزاریں جہاں سب بھائی بھائی بن کر رہیں لیکن آج سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے، کسی دوسرے کا احساس تک نہیں ہے۔ بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں جا رہی ہیں۔

 

بس میں اللّٰہ سے یہی دعا مانگ رہا تھا کہ جن جن مقاصد کے لیے ہم نے یہ وطن حاصل کیا ہےوہ پورا کرنے کی ہمت دے اور ایک دوسرے کا احساس کرنے کی توفیق عطا فرما۔ہمارے بزرگوں نے جو وطن آزاد کروایا تھا اس کو صحیح معنوں میں آزاد کر دے۔

بس جس دن سے دادا جان کی باتیں سنیں  میرے اندر ایک جنگ چھڑ گئی۔ میں چاہتا تھا کچھ کروں۔ کبھی سوچتا تھا کہ میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔

ہھر میں نے دادا جان سے مشورہ کیا. تو دادا جان میری بات سن کر بہت خوش ہوئے اور مجھے حوصلہ دیا۔

اور مجھے سمجھایا کہ ہر انسان نے اپنے حصے کا عمل خود کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے حالات اس لئیے بھی خراب ہیں کہ ہر کوئی یہ سوچتا ہے کہ میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔ اگر ہر کوئی اپنے حصے کا کام کرے تو ہمارے ملک کے آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں.۔

پھر انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنی پاکٹ منی جمع کروں اور اس کو کسی ایسے ضرورت مند کودوں جو اپنی سفید پوشی کی وجہ سے دوسروں سے مانگتا نہ ہو ۔

مجھے انکی یہ بات بہت پسند آئی۔ اسلئے اب میں اپنےپیسے فضول میں ضائع کرنے کی بجائے جمع کرنے شروع کردیئے ہیں ۔ اب جب کچھ رقم جمع ہو جائے گی تو میں دادا جی کی مدد سے کسی ایسے شخص تک پہنچاؤں گا جو واقعی ضرورت مند ہو۔

 

کتنی اچھی باتیں بتائیں ہیں تمہارے دادا جی نے۔ہم بس اپنی زندگی گزارے جاتےہیں اور کوئی کتنی مشکل میں ہوہمیں احساس ہی نہیں ہوتا۔

وہ تینوں جو بہت انہماک سے ارحم کی باتیں سن رہے تھے، اس کےچپ ہونے پر عریش بولا۔

ہاں! اب ہم بھی فضول خرچی بند کریں گے اور کسی کی مدد کریں تاکہ اپنے ملک کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں۔ اور ہمارے بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ حمزہ نے کہا۔

 

کیوں نہیں! اب ہم جدوجہد کریں گے تاکہ اپنے ملک میں خوشحالی لا ئیں اور قائد اعظم نےپاکستان بناتے وقت جو عزم کئے تھے ان کو پورا کر سکیں۔

احد بھی جوش سے بولا۔

چاروں نے یک زبان ہو کر ان شاءاللّٰہ بولا اور کچھ کر دکھانے کا عزم لئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے کیونکہ باتوں باتوں میں چھٹی کا وقت ہو چکا  تھا۔