- بچوں کی محفل
- 242 :پڑھی گئی
برساتی قطرے
صباحت شمیم
اوہو! اب میں بلکل تھک گئی ہوں کورڈیلا نےمجھ سےکہا ۔نہیں نہیں ابھی تواورکھیلنا ہے.میں نے کورڈیلا سے
صباحت شمیم
اوہو! اب میں بلکل تھک گئی ہوں کورڈیلا نےمجھ سےکہا ۔نہیں نہیں ابھی تواورکھیلنا ہے.میں نے کورڈیلا سے
حمدان احمد
اسد آج بہت بور ہو رہا تھا ۔اس کا "سائیکلنگ" کا دل چاہ رہا تھا ۔اس نے سائیکل لی اور روانہ ہو گیا ۔وہ چلتےچلتے بہت دور ایک میدان میں چلا گیا ،ایک
ثروت اقبال
وہ ننھا منّا سا بہت نرم اور بالکل سفید تھا اور بہت ٹھنڈا بھی تھا ہوا میں اڑتے ہوئے اسے بہت مزہ آرہا تھا اس کے اوپر سے اور آس پاس سے
خدیجہ توقیر
میری ایک بہت پکی سہیلی ہے جس کےساتھ میں اپنےاسکول کا کام کرتی ہوں اورشام کو کھیلتی بھی ہوں۔ ایک دن
خدیجہ امجد
"السلام علیکم بچو کیا حال ہے آپ سب کا" دادی امی نے کہا۔
نزہت ریاض
امی میں بڑا ہو کر بابا کی( طرح فوجی بنوں گا" یہ الفاظ تھےدس سالہ حماد کےجو اسکول جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا اس کی امی نے اس کی
ہانیہ احسن
کل احمد کا پہلا پرچہ تھا اس کی امی نے اس سے کہا " تم پڑھائی کرنےابھی سے بیٹھ جاو کیوں کہ آج تمہارے دادا
عصمت اسامہ
چڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کی بولیاں کہیں دور سے سنائی دے رہی تھیں مگر جب دستک کی ٹھک ٹھک بھی سنائی دینے لگی تومنور کو آنکھیں
آسیہ محمد عثمان
عبداللہ بہت زہین تھا ہر سال اوّل نمبر پرآتا تھا لیکن پچھلے کٸ ہفتوں سے اسکول نہیں آرہا تھا استاد جی نے پتہ کیا تو پتہ چلا کہ پچھلے مہینے
ماہم احسن
امی اویس کو ہوم ورک کروارہی تھیں۔ اویس کام کےساتھ ساتھ امی کواسکول کے قصے بھی سنا رہا تھا۔
عروہ احمد
"سعد ،مریم بس کرو" امی انہیں غصے سے کہتے ہوئے ۔۔۔سعد اور مریم ایک دوسرے سے اس بات پر لڑ رہے تھے کہ مریم نے سعد کا پسندیدہ
ریطہ
وہ سارے کمرے میں اپنی دنیا سجائے بیٹھا تھا،ایک طرف کاغذی کشتیاں تھیں تو دوسری طرف بحری بیڑے اور صلاح الدین