زرینہ انصاری
ماہ مبارک ماہ صیام ، نیکیوں کا موسم بہارجس کی ساعتوں میں خیرہی خیر ہے۔ یہ وہ مہینہ وہ ہےجس کے متعلق پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ! یہ ہمدردی
اورمحبت کا مہینہ ہے ۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔اس ماہ کی ہرساعت پرنور اور بابرکت ہے ۔ جب بارش ہوتی ہے تو وہ زمین کوسیراب کرتی ہے۔ زمین اپنی اسطاعت کے مطابق یہ پانی اپنے اندر جذب کرتی ہے۔پھول، پودے لہلہا اٹھتے ہیں اور مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو مسحورکردیتی ہے۔ ماہ مبارک کےہر پل رحمتو ں کی بارش ہو رہی ہوتی ہے۔ ہر مومن کی کوشش ہوتی ہے کہ رحمتوں کی اس بارش کے تمام قطرے اپنے اندر جذب کر لے۔ رحمتوں کی ساعتوں کو اپنے اندر سمیٹ لے۔ اس ماہ مبارک کی کوئی بھی گھڑی اپنے ہاتھ سے جانےنہ دے ۔ دن بھرکی بھوک اور پیاس جو کھانے کی نعمتیں اللہ تعالٰی نے اس پرحلال کی ہیں وہ مومن اپنے رب کے حکم پر اپنے اوپر روزے کی حالت می حرام کر لیتا ہے۔ رب کو راضی کرنے کے لئے راتوں میں قیام الیل کرتا ہے ۔جنت کے حصول کے لئے صبرکرتا ہے ۔
ایک روزہ دار کو ہر حال میں صبر ہی اس کو جنت کی طرف لے جاتا ہے اور یہ صبر ہی میرے اخلاق کو بہتر بنانےمیں مدد کرتا ہے۔ ہم کھانے پینے کی حد تک تو صبر کر لیتے ہیں کہ میرارب مجھے دیکھ رہا ہے ۔یہ ایک ماہ کی تربیت میرے پورے سال کے لیے ہے ۔ہم پرروزے اس لیے فرض کئے گئے ہیں تاکہ ہمارے اندر تقوٰی کی صفت پیدا ہو ۔میں ہرجگہ ہر حال میں اپنے رب سے ڈروں بات کروں توسچ بولوں کیونکہ میں روزے سے ہوں ۔لین دین کروں تو ناپ تول میں ڈنڈی نہ ماروں ۔میرے گھروالے میری وجہ سے پریشان نہ ہوں ۔رحمتوں کےاس ماہ میں مسلمانوں کی ہمدردیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں اگر کوئی روزہ دار ضرورت مند ہےتو اس کے گھرراشن ڈلوانا اپنا فرض سمجھتاہے۔ہرگھر سے راشن کی تقسیم ہرادارے سےراشن کی تقسیم ہوتی ہے کہ کوئی محروم نہ رہے۔ جیسا ہم کھا رہے ہیں ویسا ہی سب کو کھلا دیں روزہ دار کو روزہ کھلوانہ گویا جہنم سے خلاصی کا پروانہ ہے آپ گھر جانے والے راستے پر ہوں اور افطار کا وقت ہو جائے راستے میں کھڑے لوگ آپ کو کھجوراور ڈھنڈے پانی سے روزہ افطار کروائیں گے۔
کہیں آپ کو فٹ پاتھ یا اس کے کنارے دستر خوان لگے نظر آئیں گے تو کہیں لوگ افطار پیکٹ لئے کھڑے ہوں گے ۔یہ رزق کی فراوانی اور اس کی تقسیم اللہ کی توفیق اوراس کی رحمتوں کا ثمرہے۔تراویح کے لئے جائیں توکوشش ہوتی ہےکہ اگلی صف میں جگہ مل جائے۔ کوئی بھی اجرنہ رہ جائے مجھے وہ تمام احادیث یاد ہیں جس میں پہلی صف کا اجر کتنا ہے،روزہ دار کو روزہ افطار کرنے کا اجر کتنا ہے، لیکن مجھے یہ یاد نہ رہا کہ نبیﷺ اخلاق کی بلندیوں پرتھے،میں نے کتنا بلند کیا اپنےاخلاق کو، راہ چلتے کو کنارے پرہو کرراستہ دیا ؟ کیا میرا پڑوسی مجھ سے خوش ہے؟یا آئے دن میری وجہ سے اس کی تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے۔نماز کے لئے پہلی صف کی لگن مجھے تیزی سے آگے بڑھاتی ہے۔ صفوں کو پھلانگتے ہوئے دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہوئے آگے بڑھنا میرے اجر میں کتنا اضافہ کرے گا ؟ کسی راہ چلتے کو راستہ دینا کسی بیمار کی عیادت کرنا ، کسی سے اچھی بات کر لینا ، تقسیم افطار کے وقت صبر کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کرنا ، کسی بھی دکان پر سودا لیتے وقت دوسروں کو پہلے موقع دینا یہ بلکل چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن اجرمیں کہیں زیادہ ،ہم غیر مسلموں کی اخلاقیات کی مثالیں دیتےنہیں تھکتے لیکن جب ہماری باری آتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ صرف ہمارے ایک کے کرنے سے کیا ہوگا، لیکن شروع تو کہیں سے ہونا ہے تو کیوں نہ مجھ سے ابتدا ہو۔
ماہ مبارک کا اجر سمیٹتے ہوئے یہ عزم بھی کر لیں کہ اللہ تعالٰی نے ہم پر روزے اس لئے فرض کئے ہیں تاکہ ہمارے اندر تقوی کی صفت پیدا ہواور یہ تقوٰی عبادات اور اخلاقیات دونوں پر لاگو ہوتا ہے۔
زرینہ انصاری