ریاض(ویب ڈیسک ،خبر ایجنسی ،فوٹوفائل )وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا شکار مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ کے حوالے
سے بات پر عالمی اقتصادی فورم کا ہال تالیوں سے گونج اٹھا،وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی دارالحکومت ریاض میں عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس کے اختتامی سیشن میں شرکت کی۔
انہوں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ 2022 میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں تباہی آئی، پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتاہے ،جن کا موسمیاتی تبدیلی میں کوئی کردار نہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان بری طرح متاثر ہوا۔انہوں نے کہا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
وزیراعظم کی غزہ کے حوالے سے بات پر عالمی اقتصادی فورم کا ہال تالیوں سے گونج اٹھا، انہوں نے کہا کہ غزہ میں امن کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا، فلسطین میں قیام امن بہت ضروری ہے۔انہوں نے غزہ کے بارے میں بات کی تو ہال میں موجود سامعین نے تالیوں کی گونج میں جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین میں تنازعہ کے باعث دنیا بھر میں اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور پاکستان صنعت اور زراعت کیلئے ضروری خام مال درآمد اور خرید نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس مہنگائی نے ترقی پذیر ممالک کی کمر توڑ دی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جس کا موسمیاتی تبدیلی کی وجوہات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اخراج میں ہمارا حصہ ایک فیصد کا بھی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے زمین کا بڑا حصہ زیر آب آ گیا اور لاکھوں گھر اور جانور بہہ گئے اور سیلابی پانی سے ملک بھر میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھیل گئیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے قلیل وسائل سے 100 ارب روپے خرچ کئے ہیں،ہم دوست ممالک بشمول سعودی عرب، خلیجی ممالک، برطانیہ، امریکہ اور دیگر کئی ممالک کے شکر گزار ہیں جنہوں نے مشکل وقت میں تعاون کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو سیلاب کی وجہ سے 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور پھر اس نے جنیوا اور دیگر مقامات پر بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کیا اور قدرتی آفت کی وجہ سے مہنگے نرخوں پر قرضے لینے پڑے جو اس کی غلطی نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کو اس طرح سے نشانہ بنایا گیا جو میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔انہوں نے پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے عزم کے اظہاکیلئے اپنے خاندان کی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد اور ان کے بھائی غیر منقسم ہندوستان میں ایک غریب کسان کے بیٹے تھے اور وہ تقسیم کے وقت لاہور، پاکستان ہجرت کر گئے تھے، سخت محنت کے ساتھ 1965 میں ان کے والد اور خاندان نے پاکستان میں سٹیل انجینئرنگ کی سب سے بڑی کمپنی قائم کی لیکن 2 جنوری 1972 کو اسے نیشنلائز کر دیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ان کے خاندان نے کھڑے ہو کر چیلنج قبول کیا اور اگلے 18 مہینوں میں کمپنی قائم کر دی، مزید قومیانے سے بچنے کے لئے چھ نئی چھوٹی فیکٹریاں لگائیں ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔وزیر اعظم نے کہا کہ اس سال کے شروع میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد وہ معاملات کو ترتیب دینے کیلئے پرعزم ہیں۔پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی کی بڑے پیمانے پر چوری کی وجہ سے پاور سیکٹر تباہی کا شکار ہے اور اشرافیہ کا کلچر ان لوگوں کے ساتھ مل رہا ہے جو اس کے مستحق نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایجنسیوں سے قابل اعتماد ان پٹ ملنے کے بعد انہوں نے اعلی سطح کے ایسے افسران کو ہٹایا جو بہتر کام نہیں کر رہے تھے اور ان کا ریکارڈ درست نہیں تھا۔ہمارا ریونیو سیکٹر زبوں حالی کا شکار ہے اور جو ہمیں سالانہ ریونیو میں ملتا ہے ہم سسٹم میں لیکیج کی وجہ سے چار گنا نقصان اٹھاتے ہیںجب تک ہم خامیوں کو دور نہیں کریں گے۔ ہم ریونیو کی وصولی میں اپنے مسائل سے بچ نہیں سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی اور قرضوں کے جال کے مسائل بھی ہیں جو کہ موت کا جال ہے۔