نگہت فرمان
ہم فلسطینیوں کے لیے سوشل میڈیا پر "جہادی" بن جائیں ہم روزان کے لیے مظاہرے کرلیں ،تقاریر کرلیں، کیا یہ کافی ہے ؟ ہم پاکستانی بہت ہی جذباتی قوم
ہیں ، چاردن کے لیے آنسو بہاتے ہیں۔ اس کے بعد بھول جاتے ہیں۔۔
فلسطین کا مسئلہ کوئی آج کا تو ہے نہیں پچھترسال سے زیادہ پرانا ہوگیا ۔ ستاون اسلامی ملک ایک چھوٹےسے اسرائیل کو اس کے مظالم سےنہیں روک سکے اور کیا کریں گے؟ اسرائیل دن بہ دن مضبوط اور ہم سب لوگ کمزور ہوتے جارہے ہیں ۔ ہم حکمرانوں کی بےغیرتی و بے حسی پر آنسو بہاتے ہیں ششدرہیں کہ ان کو نہ معصوم بچوں کےلاشے جھنجھوڑ رہے ہیں ۔ نہ بہنوں کی آہ و فغاں ستا رہی ہیں۔ تاریخ میں جب فلسطینیوں پرڈھائے جانے والے ظلم لکھےجائیں گےتو تاریخ دان یہ بھی لکھے گا کہ اس وقت ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی غیرت مند نہیں تھا۔ سب صرف لفظوں کی توپیں چلارہے ہیں اوربرادران یوسف کا کردارادا کررہے ہیں ۔ صیہونی مظالم پر تو درندے بھی ان کی درندگی پر حیران ہیں کہ انسان نے تو اس کو بھی مات دےدی لیکن سچ اور تلخ حقیقت تو یہ ہےہم نے بھی آسان راستہ چنا ہے۔ ہم کچھ عرصہ میں سڑکوں پرجمع ہوتے ہیں شور کرتے ہیں اور پھر خاموشی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ۔
ہمارے رہن سہن میں ہمارے جاگنے بیٹھنے میں کس میں فرق آیا ؟ ہم سوشل میڈیا پرچند جذباتی پوسٹ شئیر کرکے"حق" ادا کررہے ہیں ۔ہمارے کن معاملات میں فرق آیا؟ ہم نے تو اہل غزہ سے کچھ نہیں سیکھا ۔۔نہ ہم قرآن سے اس طرح اپنا رشتہ استوار کر پارہےہیں کہ روح کی غذا قرآن بن جائے،نہ ہم اپنی زندگیوں میں قرآن نافذ کررہے ہیں ۔ رمضان میں کتنے تکمیل قرآن کی تقاریب منعقد کی گئیں۔ دعائیں ہوئیں ۔ ہر گلی محلے میں لیکن اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ہم میں سے کسی نے قرآن کا حق ادا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی؟
ہمارے ہاں تو رمضان بھی تہواربنادیا گیا ہے۔ پہلے تقاریرکم عمل زیادہ ہوتے تھے، اب ہر کوئی مقرربنا ہوا ہے،موٹیویشنل اسپیکرز توکھمبیوں کی طرح سامنے آرہے ہیں، ہردوسرے فرد پراسی کا ٹیگ ہےکہ لیکن ان کا بھی کہاعمل سے دور ہی ہے ۔
پہلے میڈیا اور پھر سوشل میڈیا نے نئے نئے انداز سے ہمارے ذہنوں کو قید کردیا ہے تخلیقی صلاحیتیں منجمد ہوگئیں ہیں ایک طرف بس کھانے کا چکر ہے اور دوسری جانب کمانے کا ہم کس طرح سوشل میڈیا کے قیدی بن گئے ہمیں احساس بھی نہیں ہورہا دشمن یو ٹیوب ،ٹک ٹاکز فیس بک و دیگر ایپس کے ذریعہ ہمارا دل و دماغ قید کررہا ہے اور احساس بھی نہیں اپنے بچے تک تو ہم نے موبائل و ویڈیو گیمز کے حوالے کیے ہوئے ہیں جن پر راج ہی ان یہودیوں اور ان کے حواریوں کا ہے پھر ہم کیکر بو کر گلاب کھلنے کا انتظار کیوں کررہے ہیں ؟ صلاح الدین ایوبی ایسے پیدا نہیں۔ ہوتے سر پر پٹیاں باندھ کر ہاتھوں میں بینر و جھنڈے پکڑ کر پر زور نعرے و تقاریر سے خون زرا جو جوش مارتا ہے،وہ تھم بھی اسی تیزی سے جاتا ہے اگر کردار میں طاقت و مضبوطی نہ ہو تو ۔۔ یہ کرنا ہے ضرور کریں کہ لازمی ہے جذبات و احساسات کا اظہار لیکن صرف امداد سےاور فلسطین کے جھنڈوں و قومی علامتوں کی چیزیں سجانے سے فلسطینیوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
اس کے لیے ہمیں مستقل بنیادوں پر اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالتے رہنا ہوگا کہ بس بہت ہوا اس ظلم کو بند کرانے کے کے لیے اب حکومتیں آگے بڑھیں دباؤ ڈالیں حکومت پر کہ میک ڈونلڈ و کے ایف سی وغیرہ حکومتی سطح پر بند کریں یہ ممکن نہیں تو عوام کو ذہنی طور پر آمادہ کریں کہ ان کا ایسا بائیکاٹ کریں خود مجبور ہو جائیں یہ اپنی برانچز بند کرنے کو کہ ہاتھی کو گرتے دیر لگتی ہے لیکن جب گرتا ہے تو آٹھ نہیں پاتا خود بھی اپنے منہ کو آرام دیں نہ کھائیں پیسوں کے ساتھ صحت بھی محفوظ رہے گی ۔
حکومت پر زور ڈالیں کہ اپنی لوکل پروڈکٹس کا معیار بہتر کرکے زیادہ تعداد میں مارکیٹ میں لائیں خود بڑی چھوٹی دکانوں پر اس کی تشہیر کرنے اسے خریدنے پر زود دیں کوئی فرق نہیں۔ پڑتا اگر معیار اعلی نہ ہو کیا خبر یہ کم معیار کی چیزیں رب تعالیٰ کے ہاں ستر گنا بڑھ کر مل جائیں اور اہم کام مظاہرے کرنے ہی ہیں سفارت خانوں کے باہر بھی تو کریں کہ انہیں بھی احساس ہو کہ جب تک اہل فلسطین کو ان کا حق نہیں۔ مال جاتا تب تک۔ احتجاج اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھنا ہےہرکچھ برس بعد اسی طرح مہم چلتی ہے اور پھر غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے ان کے مظالم اب نہ بھولنا ہے نہ بھولنے دینا ہے اقصی کی آزادی تک اس جنگ کو جاری رکھنا ہے ۔۔اپنے ہر عمل سے اہل علغزہ کو یہ احساس دلائیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں ہم ان کا درد محسوس کرتے ہیں ہم ان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں آپنی زندگیوں میں معاملات میں۔
؎شادی بیاہ و خوشیوں میں سادگی اپنائیں کہ یہ ایمان کا تقاضہ تو ہے ہی وقت کا بھی ہے قرآن سے اپنا اور اپنے بچوں کا رشتہ جوڑیں فلسطینیوں کو دیکھیں انہوں نے قرآن کو اپنایا ہے اسے رٹا ہی نہیں یاد ہی نہیں کیا بل کہ اسے شعور کے ساتھ سینوں میں۔ اتارا ہے جب ہی تو نظر آتا ہے کہ ایک فرد جس کے خاندان کے کئی افراد دنیا سے جاچکے ہیں وہ مسکراتا بھی ہے اور یقین بھی رکھتا ہے کہ یہ دکھ ختم ہو جانے والے ہیں کیسے بھول سکتے ہیں اس بچے کو جو انتہائی بھوک میں بھی کھانا نہ ملنے پر خالی برتن لیے ہنس رہا تھا کیا اس بچی کو بھول سکتے ہیں جو صیہونیوں کو للکار رہی تھی کہ جو مرضی آئے کرلو ہم اپنا وطن نہیں چھوڑیں گے ۔کتنی ہی تصویریں ہیں جو نگاہوں میں ٹھہر گئی ہیں کتنی ہی ویڈیوز ہیں جو دل میں اتر گئی ہیں بس انہیں صرف سراہنا ورشک نہیں کرنا ان سے سیکھنا ہے کہ جب قرآن پڑھنے والا قرآن کا فہم حاصل کرتا ہے تو حق گوئی و بے باکی اس کے کردار کا حصہ بن جاتی ہے وہ ایک اللہ سے ڈرتا اور اس سے ملاقات پر یقین رکھتا ہے ہمیں بھی ایسے ہی بننے کی کوشش کرنا ہے اہل فلسطین کو اپنے عمل سے پیغام دینا ہے کہ وہ دنیا میں تنہا نہیں ہم ہیں ان کے ساتھ ۔۔