افروز عنایت
سارے گھر والےعید کی تیاریوں میں مصروف تھےخصوصاگھرکی خواتیں چوڑیاں مہندی،رنگ برنگے کپڑے ایک دوسرے کو دکھا رہیں تھیں سب کے
چہرے شادمان نظر ارہے تھے ،صرف اس گھر کی ایک بہو تھی جو حسرت سے انہیں دیکھتی اور ان کے ساتھ شاملہونے کی کوشش کرتی لیکن سامنے والوں کے رویے میں سرد مہری دیکھ کراسے دکھ ہوتا۔
مہرین کی شادی کےبعد اس گھر میں اس کی پہلی عید تھی۔ گھر میں ساس نندیں جیٹھانی شوہر کی ایک پھوپھی سب تھے،نہ جانے کیوں اسے سب نظر انداز کرتے۔ اماں کی نصیحت کے مطابق اس نے سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کی بہت کوشش کی۔ شاید اس بے رخی کی وجہ یہ تھی کہ اس کی ساس اپنی پسند کی بہو لانا چاہتی تھی جبکہ سسر نےاپنے ایک عزیز کی بیٹی کو اپنی بہو بنانےکا فیصلہ کیا تھا۔
عام دنوں میں تو اس قسم کی صورتحال وہ برداشت کر رہی تھی لیکن رمضان المبارک اورپھرعید کی تیاریاں،ان دنوں میں اسےاپنے گھر والوں کے سرد رویے نے بہت دکھی کردیا تھا ۔ اسے اپنے میکے میں گزارے رمضان المبارک اور عید کے خوبصورت لمحے یاد آتےتو بے اختیار اس کی آنکھیں چھلک پڑتیں ،شوہربھی بزنس کی وجہ سے زیادہ مصروف رہتےاوراکثر شہر سے باہر رہتے۔اس لئےاسے اپنی تنہائی کا احساس بہت زیادہ ہونے لگا تھا۔
دوپہر کو ڈرائنگ روم سے بولنے اور ہنسنے کی آواز آئیں تو وہ بھی کچن کا کام نمٹا کر ڈرائنگ روم کی طرف آگئی ،جہاں اس کی نندیں اور ان کی کچھ کزن بیٹھیں تھیں جو ایک دوسرے کو عید کی تیاریوں کے بارے میں بتا رہی تھیں ۔اس نے بھی سلام کرکے ان کی گفتگو میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن فوراً بڑی نند نے اپنی کزنز سے کہا کہ چلیں میرے کمرے میں بیٹھ کر آرام سے باتیں کرتے ہیں ۔ وہ سب کا منہ دیکھتی رہ گئی ۔ یہ آج کوئی پہلا موقع نہ تھا بلکہ اکثراس کے ساتھ اسی طرح ہوتا رہا تھا۔
آج عید کی رات تھی سب خواتین افطار اور نماز مغرب کے بعد چھت پر چاند دیکھنےگئیں تو وہ بھی خوشی سےان کےساتھ چاند دیکھنے گئی۔ چاند دیکھ کر وہ ساس کی طرف بڑھی تاکہ ان کے گلے لگ کر چاند مبارک کہے لیکن وہ بےرخی سے جواب دے کرآگےبڑھ گئی۔ اسی طرح سب خواتین نےبے رخی برتی ۔ اس نے زبردستی آگے بڑھ کر چھوٹی نند جو اس کی ہم عمر تھی اس کو گلے لگا کر چاند مبارک کہا۔
مہرین !-- نسیمہ آپ لوگ مہندی لگوانے جائیں تو میں بھی آپ سب کے ساتھ جاؤں گی،اس نے اس بات کا تذکرہ ساس سے بھی کیا ،نماز عشاء کے بعد کچن میں مہرین برتن دھو رہی تھی تواسے اپنی جیٹھانی اورنند کی آواز آئی جو مہندی لگوانےجارہی تھی ،وہ فوراً باہرآئی کہ ان کےساتھ وہ بھی مہندی لگوانے جائےلیکن اس سے پہلے وہ لاؤنج میں پہنچتی سب جا چکے تھے ۔
اگلا دن عید کا دن تھا سب خوش تھے وہ ایک نئی امید کےساتھ سامنے والوں کی بے رخی کے باوجود سب سے گلے ملی۔ اس نے سوچا مجھے اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے وقت کےساتھ شاید سب ٹھیک ہو جائے لیکن اس ماحول کی وجہ سے اندر سے اس کا دل بڑا دکھی تھا ۔
دروازے پر دستک ہوئی تو اس نے ہی دروازہ کھولا سامنے اس کی بڑی پھوپھی ساس تھی جس نے بڑے پیار اور والہانہ محبت سےاسے گلے لگایا۔ پیشانی پرپیار کیا اور کانچ کی چوڑیاں اس کے ہاتھ میں رکھیں کہ اس خاندان میں تمہاری پہلی عید ہے،چند لمحے پہلے جو وہ بہت اداس تھی ایک دم اس کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔
پھوپھو!-- کیا سوچ رہی ہو دلہن ؟؟
مہرین پھپھو کی آواز پرچونک گئی۔ اس نے محبت سے ان کےہاتھ چوم لئے،شکریہ پھپھو۔
پھپھوکے اس پیار اور چوڑیوں کے اس تحفے نے اسےعید کی خوشی سے ہمکنار کردیا جس کے لیے وہ ترس رہی تھی۔