افروز عنایت
آج عید کا اٹھواں دن ہے، دعوتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ رات کو دعوت سےتھکے ہوئے آئے، صبح نمازوغیرہ سے فارغ ہوکرسوچا تھوڑی دیر آرام
کریں ، ابھی نیند پوری طرح آئی نہیں تھی کہ گرمی کا احساس ہونے لگا پتا چلا لائٹ چلی گئی ہے۔ اف خدایا اتنی گرمی ،خیرکروٹیں بدلتے رہے لیکن آرام نہ آیا ۔ آخر سوچا ناشتہ ہی کرلیں پتا چلا گیس بھی موجود نہیں۔ یوں لگا ہم ایک صدی پیچھے چلے گئے ہیں ۔
خیر شکرخدا کا کہ گیس آگئی جیسے ہی گیس آئی لوگوں نے جنریٹر چلانے شروع کر دیےجس سے گیس کا پریشر دھیما ہوگیا۔ اس دھیمی آنچ پر صرف چائے بن پائی شکر ادا کیا۔ فریج میں رکھی ٹھنڈی ڈبل روٹی چائےکے ساتھ کھائی کہ نہ جانے کتنے ایسے ہوں گےجنہیں یہ بھی میسر نہیں ہوگی۔ سوچا تھوڑی دیرمیں لائٹ آجائےگی تو دوپہر کا کھانا بنائیں گے،پتا چلا کہ لائٹ ایک بجے آئےگی لہذا دھیمی آنچ پر ہی کچی پکی سبزی بن گئی ۔ چپاتیاں بازارسے منگوائیں،ابھی ظہر کی نماز کےلئے باتھ روم میں وضو کرنے گئی تو پانی ندارد، بیٹے سے کہا پانی کی موٹرچلادیں،جیسے ہی بیٹے نے پانی کی موٹر چلائی جنریٹر بھی بند ہوگیا کیونکہ گیس کم آرہی تھی۔
تینوں باپ بیٹےکہنے لگے ہم تومسجد میں ہی وضو کرلیں گےلیکن مسجد میں بھی پانی نہیں تھا(مسجد ہماری سوسائٹی کےاندرہی ہے) تیمم کرکےسب نے وہاں نماز پڑھی،ہم نے بھی گھرمیں تیمم کرکےنماز ادا کی۔ اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا جس نے ہم مسلمانوں کو اتنی آسانیاں عطا فرمائی ہیں۔
پورے محلے والے پریشان ،بار بار معلوم کیا جارہا تھا ایک دوسرے کو یہ تسلی دی جارہی تھی کہ ابھی آدھے گھنٹے تک لائٹ آجائےگی ۔مرمت کا کام تکمیل پرپہنچنے والا ہے،صبح سے شام ہوگئی ،سورج ڈوبنے لگا لیکن لائٹ کا دور دورتک نام ونشان نہیں ۔ دوپہر والا بچا کھچا سالن بازار کی چپاتیوں کےساتھ کھاکرشکرادا کیا ۔
ہمارا سوئی گیس کا محکمہ اتنا وقت کا پابند ہےکہ پورے ساڑھے نو بجے گیس لوڈشیڈنگ کا دورانیہ شروع کردیا گیا،جس کی وجہ سےجنریٹر بھی بند ہوگئے۔ اب اندھیرے میں چاروں طرف سے بچوں کی رونے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں،جن کے گھروں میں دعوتیں تھیِں،ان کے تو پروگرام ہی وڑگئے۔ بیٹا کہنے لگاپٹرول پرہی جنریٹرچلاتےہیں لیکن دیکھا تو پیٹرول بھی ختم ہوچکا تھا خالی بوتل ہمیں منہ چڑھارہی تھی کہ کرلوجو کرنا ہے۔
دس بجے تک لائٹ آنےکا انتظارکرتے رہے کہ لائٹ آجائے گی ،کسی پڑوسی نےآکر بتایا کہ لائٹ اج نہیں بلکہ اب کل آئےگی ۔ اس وقت دونوں بیٹوں نے پیٹرول کی بوتل اٹھائی، میں نے پوچھا کہاں جارہے ہو۔۔۔ کہنے لگے گھرمیں چھوٹے بچے ہیں ہم تو جاگ کررات گزاردیں گے ۔۔ یہ ساری رات روتے رہیں گے۔ پیٹرول لینے جارہے ہیں ،پٹرول آیا تو جنریٹرچلا ،، میں اپنا یہ بلاگ لکھنے بیٹھ گئی ۔ رات کے بارہ بجنے والے ہیں ۔۔۔ جی جی ایک منٹ رکیے شاید لائٹ آگئی ہے۔ جی خیرسے پندرہ گھنٹے کے بعد محترمہ بجلی صاحبہ نے اپنا دیدارکروادیا ہے۔
یہ تھی عید کے آٹھویں دن کی روداد۔۔۔۔جس نےہمیں ایک صدی پیچھے پہنچا دیا ،اس وقت کیسےجی رہے ہوں گے وہ لوگ ؟؟؟؟