اسماء معظم
سندھ اسمبلی کے سامنے بلدیاتی قانون کے خلاف 31دسمبرسےشروع ہو نے والا دھرنا آ ج 22ویں دن میں داخل ہوچکا ھے۔
دسمبر کی شدید ترین سردی اور بارش کے باوجود یہ دھرنااسی توانا قوت کےساتھ جاری رہا اور اب تک جاری ہےجس میں نہ صرف بوڑھے، بچےاور جوان کثیر تعداد میں شامل ہیں بلکہ عورتوں کی بھی بڑی تعداد اس دھرنے میں موجود ہے۔
اس دھرنے کے شرکاء انتہائی پرعزم ہیں کہ وہ دھرنے کے مقام سے مطالبات تسلیم ہونے بغیر واپس نہیں جائیں گے اور پرامن ایسا کہ کسی قسم کا بھی کوئی چھوٹا سا بھی ناخوشگوارواقعہ سننے میں نہیں آیا۔بلکہ انتہائی پرامن طریقے سے جاری ہےاور انشاء اللہ حقوق کی جنگ میں فتح تک جاری رہے گا۔
اس دھرنے کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں بلدیاتی قانون کوآ ئین کے آرٹیکل ایک سوچالیس اے کےمطابق تشکیل دیا جائےاور بلدیاتی اختیار ات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے۔
آرٹیکل ایک سوچالیس اے میں کہا گیا ہے کہ ہر صوبہ قانون سازی کےذریعے ایک مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اورسیاسی انتظامی ومالی ذمہ داری اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو دے گا لیکن نئے بل میں اس آرٹیکل کی واضح نفی کر دی گئی ہے ۔
نئے بلدیاتی نظام کو جسے کالاقانون کہا جارہا ہے،میں سندھ حکومت نے تمام ہسپتال اور دیگر ادارے جو شھری حکومت کےاختیار میں آ تے ہیں انہیں شھری حکومت سے چھین لیا ھے۔
اس دھرنے کی قیادت کراچی جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کررہے ہیں ۔یہ جماعت اسلامی ہرموقع پرعوامی مسائل کو لے کر احتجاج کرتی رہی ہے نادرا کے شناختی کارڈ کے مسائل ہو ں یا کے الیکٹرک کی اوور بلنگ کے مسائل ,بحریہ ٹاؤن کے متاثرین کے مسائل ہوں یا سوئی گیس کے مسائل، سانحہ بلدیہ ٹاؤن کےمتاثرین کا معاملہ ہویا نسلہ ٹاور کے متاثرین سے متعلق معاملہ ،انہوں نے ان تمام عوامی مسائل کو حل کرانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس کے لیے ہر سطح پر آواز بھی بلند کی ہے ۔اور نہ صرف آ واز بلند کی بلکہ ہزاروں متاثرین کو ان کے کئ کئ لاکھ کی مالیت کی رقومات چیک کی صورت میں اسی دھرنے میں ادا کی گئی ہیں۔ 18 تاریخ تک 17 کروڑ روپے کے پے آ ڈرز متاثرین بحریہ ٹاؤن کو دھرنے کے دوران ادا کیے جا چکے ییں جو جماعت اسلامی والوں کا تاریخ میں بہت بڑا کارنامہ ہے اور یہ کارنامہ جو متاثرین کے لئے انجام دیا وہ ان کی کئ سال کی جدوجہد کا نتیجہ ھے ۔
دھرنے کے شرکاء چاہتے ہیں شہر قائد کو اس کا اصولی حق ملے یہاں ٹرانسپورٹ، پانی،بجلی، گیس ،تعلیم ،صحت اور امن وامان وغیرہ کے مسائل ختم ہوں نوجوانوں کو روزگار ملے لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں بہت سی حکومتیں آئیں ۔کئ کئی سال حکومت کی۔ کسی نے 13 سال، کسی نے 35 سال ۔ایک دن کی حکم پر ہڑتالیں تو کروا لیں گئیں لیکن یہاں کے شہریوں کو پانی، گیس، بجلی،تعلیم صحت اور ٹرانسپورٹ سے محروم رکھا سڑکیں جو آئے دن ٹوٹتی پھوٹتی رہتی ہیں ان کو اچھی حالت میں شاذونادر ہی دیکھا ۔ قتل و غارت گری اور ڈکیتیوں کے سوا ان حکومتوں نے کچھ نہیں دیا ۔ نوجوان نسل کو فوڈ پانڈہ اور بائیکیہ کے علاوہ کوئ روزگار نہیں ملا۔
گھروں سے نکلے بھائی شوہر باپ محفوظ نہیں۔عورتیں بچیاں بھی انتہائی غیر محفوظ۔
حال میں کشمیر روڈ پر شاہ رخ نامی لڑکے کےقتل کا واقعہ اس حکومت کی نااہلی کی زندہ مثال ہے ۔
یہ کیسا نظام ہے؟ یہ دھر نا ہم سے مطالبہ کر رہا ہے کہ نظام مصالحت سے نہیں بدلتے اس کے لیے کوشش درکار ہوتی ہے۔۔۔۔۔جدوجہد درکار ہوتی ہے۔دھرنے میں موجود شرکاءکا نعرہ،
تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو۔۔۔۔۔۔۔ تسلسل سے جاری ہے۔
وہ جدوجہد دھرنے کی شرکاء 22 دن سے کر رہے ہیں ۔وہ اس کالے قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، جو کئی سال سے اس کراچی میں مسلط ہے ۔وہ کراچی کے لیے بیٹھے ہیں ۔وہ اس شہر کراچی کے امن کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے محسن ہیں ۔ آپ کی اور آپ کے معصوم بچوں کے حقوق دلوانے ہی کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ہم لوگوں کے حقوق اورا ختیار حاصل کرنے کے منتظر ہیں ۔اسی لئے ہم دھرنا دئیے بیٹھے ہیں ۔صرف اپنے رب کی خاطر، اپنے رب کی رضا کی خاطر نکلے ہیں۔ مظلوموں کی مدد اور حمایت کا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود حکم دیا ہے۔۔۔
نسلہ ٹاور کا معاملہ کوئ معمولی بات تو نہ تھی کسی کے آشیانےکو بلاسبب توڑ دینا اس کو یکدم گرادینا مکینوں کے دلوں پر کیا گزر گئ سوچئے ۔۔۔کچھ تو اس دنیا ہی سے گزر گئے نسلہ ٹاور کے ہر مکین کی دل کی آ واز ۔۔۔کیوں توڑا میرے آ شیانے کو؟ لیکن آپ نے ان کے لاکھوں کی مالیت کے نقصان کے بارے میں کچھ نہ سوچا کہ ان پرکیا بیت گئ ۔۔۔نسلہ ٹاور کےمکینوں کے گھروں کو گرادینا ان مکینوں کے لئے کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔ اس دھرنے کے شرکاء ان مکینوں کا حق مانگتے ہیں ۔ان کےآ شیانوں میں لگائ گئ رقم کی واپسی کا مطالبہ کر تے ہیں ان کا جائز حق مانگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن افسوس انتہائی صد افسوس حکومت اس دھرنے کے مطالبات پر کوئی کان نہیں دھررہی ہے ۔ان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
یہ بھی دیکھئیے جماعت اسلامی نے تو صرف ایک صوبائی نشست کےساتھ 3کروڑ شہریوں کا قرض اورشہر کراچی کا فرض ادا کردیا ۔کیا یہ کم بات تھی۔۔۔۔۔۔
میڈیا میں کوئی کوریج نہیں دی جا رہی ہےجبکہ شہر یں کوئی چھوٹا سا بھی واقعہ پیش آ جائےاوروہ انتہائی غیر اہم بھی ہو لیکن ایسی کوریج دی جاتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ، دوسرے دھرنوں کی خالی کرسیوں کو لائیو دکھانے والا میڈیا,مستقل اچھی اور اورمثبت سرگرمیوں کو وہ اہمیت اور وہ کوریج کیوں نہیں دیتا جو اس کا اصل حق ھے۔؟یہ کوریج کل بھی ان کا حق تھا اور آ ج بھی ان کا حق ھے۔
کراچی کا یہ دھرنا آپ کے حقوق کی آ واز ۔۔۔کراچی شھری حقوق کی جنگ ۔۔۔اپ بھی ائیے جماعت اسلامی کراچی کے سنگ۔۔۔جس کا پیغام بااختیار مئیر اور شھری حکومت کا قیام ہے۔۔۔ان کا کہنا ھے کہ ،ہم اہل کراچی اب کے برس اپنا پورا حق لیں گے۔
تم آستان ظلم سے لپٹی سیاہ رات
ہم صبح انقلاب کے ماتھے کی روشنی
کراچی دھرنے کی آواز حقوق کی آوازہے ۔۔۔اس آوازمیں آ واز ملائیے۔۔۔اٹھ کھڑے ہوئیے!
دھرنے کے لئے گھروں سے نکلئیے۔۔۔۔گھروں سے نکلے بغیر مسائل حل نہیں ہوں گے ۔اپنے بچوں اور اس کراچی شھر کے حقوق کی خاطر اٹھ کھڑے ہوں !اس سے پہلے کہ مزید ظلم کی چکی میں پسیں ۔حقوق کے لئے آ وازاٹھائیے!
چراغ سے چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی ،
تو پھر دیر کس بات کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تاج اچھالے جائیں گے جب تخت گرائے جائیں گے
اٹھتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
بڑھتے ہی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالیں جائیں گے
قدم بڑھائیے ۔۔۔اپ کا قدم بڑھانا ہی شرط ھے
یہ قدم بڑھانا ہی آ پ کوآ خرت کے دن سرخرو کرے گا۔