افروز عنایت
آج ایک انتہائی افسوس ناک بات جومنظرعام پرآئی ہے وہ ہےدرسگاہوں میں غیرمہذب سرگرمیاں اوربےحیائی کی فضااوراساتذہ کی شاگردوں کے
ساتھ غلط حرکات درسگاہوں میں غیرمہذب سرگرمیوں اوراساتذہ کےکردارپراٹھنےوالی انگلیوں کی بدولت معاشرے میں تشویش کی لہردوڑ رہی ہے جو کہ غلط نہیں ہے۔ ہر مذہب اور معاشرے میں درسگاہوں اساتذہ کرام کو ایک خاص اہمیت اورمقام حاصل ہے کیونکہ یہ انسان کی تعلیم وتربیت کےلیےایک اہم زینہ ہیں جو ملک وملت کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت بھی ہیں۔ درسگاہوں کی مقدس چاردیواری میں اساتذہ کرام کی رہنمائی میں نئی نسل کی آبیاری ہوتی ہے،اسی لئے ان دونوں کو ہر معاشرے میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔
کچھ زمانہ پہلےتک بھی درسگاہوں کی چاردیواری علم حاصل کرنےوالوں کےلیےتحفظ کی ضمانت سمجھی جاتی تھی ۔والدین اپنے بچوں کو اسکول وکالجز میں بھیج کرمطمئن ہوتےتھےکہ جیسے بچے اپنے ہی گھروں میں محفوظ ہوں لیکن کیا آج یہ صورتحال ہے؟؟ بیشک تمام تعلیمی درسگاہیں ان غیرمہذب سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں لیکن بدنامی کا دھبہ تولگ چکا ہے،جس سے سب پاکستانی خائف ہیں۔ یہ چیز خصوصاًلڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہےاوریہ سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے۔
پھراساتذہ کرام کا کرداراعلی کارکردگی اس کی اہمیت ہردوراورجگہ رہی ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نےاستاد کے لئے جومختصر اورجامع الفاظ استعمال کئے ہیں کہ استاد روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ جملہ استاد کی مکمل تشریح کرتے ہیں ماشاء اللہ اصل اور بہترین استاد صرف تعليم دینےکا ذریعہ ہی نہیں بلکہ تربیت کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔اس کا بھرپوراحساس مجھے خود استاد بن کر ہوا۔
میں کراچی کےایک معروف اور بڑے تعلیمی ادارےمیں استاد کے فرائض ادا کرچکی ہوں۔ اسکول کی مالکہ ہرمیٹنگ میں چند اہم جملے جوہم ٹیچرز کےگوش گزار کرتی تھی ان جملوں نے ہمیں اپنی اہمیت اورذمہ داری کا بھرپور احساس دلایا۔ان کاکہنا تھا کہ استاد شاگردوں کےلیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس لیےآپ کاکرداروعمل بہت اہمیت کا حامل ہے اورآج کےوالدین اتنےمصروف ہوگئے ہیں کہ آپ کو ان کے بچوں کو صرف تعلیم ہی نہیں رینی تربیت بھی کرنی بےیعنی آج کے استاد پر دہری ذمہ داریاں ہیں۔
ان کا کہناغلط نہیں تھا۔آج والدین کی اکثریت اپنی اولاد کو وقت نہیں دے پارہی ہے،علم لینا اوردینا نبیوں کاشیوہ ہے۔ سبحان اللہ اسی جملےسے علم دینے اور لینے والے کی اہمیت واضح ہےلیکن افسوس بےحد افسوس کہ یہ مقدس اوراہم پیشہ بھی اس بے حیائی کی لپیٹ میں آگیا ہے جب میڈیا پراساتذہ کرام کےبارے میں یہ منفی باتیں سنتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ استاد جس کا درجہ والدین کےبرابرہے، وہ ایسی گھناونی حرکات میں ملوث ہوسکتےہیں۔ ایسے چند بےحیائی کے مرتکب استادوں کی وجہ سےیہ مقدس اور مہذب پیشہ بدنام ہورہا ہے جواس معاشرے کے لئے ایک دھبہ ہے۔
اس سلسلےمیں ایسی حرکات میں ملوث افراد کو سرعام سزائیں دینی چاہئیں اورمتعلقہ ذمہ داراداروں کو اس گندگی کی روک تھام کے لئےاعلیٰ سطح پراقدامات کرنےچاہئیں ۔ اس برائی کا یہیں روکنا لازمی امر ہےجس میں کوتاہی انتہائی خطرناک ثابت ہوگی ۔ درس گاہوں اوراستادوں پرسےاعتبار اٹھ گیا تو نئی نسل کی آبیاری کا اور کونسا راستہ یوگا؟؟؟